اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-07-27

صحابہ کرامؓ کا آنحضرت ﷺ سے عشق

پیارے آقا سیّدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت انصار ومہاجرین کے بیچ ایسی تھی جیسے کوئی روشن شمع پروانوں کے بیچ میں ہو۔ صحابہ آپؐ پر دل و جان سے فدا تھے۔ آپؐکے ہر حکم پر لبیک کہتے۔ آپؐکے ساتھ سائے کی طرح لگے رہتے۔ بعض آپؐ کے خداداد رعب، تابناک رُوئے مبارک کی وجہ سے آپؐ کو نظر بھر کر نہ دیکھ سکتے، آپؐ سے سوال پوچھنے سے شرماتے اور انتظار کرتے کہ کوئی دیہاتی آکر پوچھے تو ہم بھی سنیں۔ آپؐاُن کیلئے دُنیا کی ہر چیز سے زیادہ قیمتی تھے۔ وہ کسی بھی حال میں آپؐسے دُور رہنا اور آپؐکو گنوانا نہیں چاہتے تھے، نہ مرد نہ عورت نہ بوڑھا نہ بچہ کوئی بھی نہیں چاہتا تھا کہ آپؐاُن سے جُدا ہوں۔ آپؐکے وصال پر صحابہ مارے غم کے دیوانہ ہوگئے۔ حضرت عمرؓجیسا بہادُر انسان بھی ایسا نڈھال ہوا کہ کھڑے ہونے کی طاقت نہ رہی اور پیر آپ کا بوجھ نہ اُٹھاسکے۔ حسّان بن ثابت شاعر رسول کا یہ شعر صحابہ کے حالات کی صحیح عکاسی کرتا ہے ۔

کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِیَ عَلَیْکَ النَّاظِرُ ٭ مَنْ شَاءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرُ

کہ اَے محمد ﷺ تُو تو میری آنکھ کی پتلی تھا تیرے فوت ہوجانے سے میری آنکھ اندھی ہوگئی ہے ۔ اب جو چاہے مَرے مجھے تو تیری ہی موت کا ڈر تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک بار مسجد مبارک میں ٹہل رہے تھے اورحسّان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کا یہ شعر پڑھ کر اور اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ  صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کرکے زاروقطار روئے جارہے تھے کسی کے پوچھنے پر فرمایا کہ کاش یہ شعر میری زبان سے نکلا ہوتا۔ ذیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کے عشق و محبت کی انمٹ داستان میں سےچند سطورقارئین کی نذرکرتےہیں۔
ماہ صفر4ہجری میںقبائل عضل اورقارۃ کے چند لوگ آپؐکی خدمت میں حاضرہوئے اورعرض کیا کہ ہمارے قبائل میں بہت سے آدمی اسلام کی طرف مائل ہیں آپؐچندآدمی ہمارے ساتھ روانہ فرمائیں جو ہمیں مسلمان بنائیں اوراسلام کی تعلیم دیں۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ان کی یہ خواہش معلوم کرکے خوش ہوئے اور دس صحابیوں کی ایک جماعت ان کے ساتھ روانہ فرمادیلیکن دراصل جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا یہ لوگ جھوٹے تھے اوربنولحیان کی انگیخت پرمدینہ میں آئے تھے جنہوں نے اپنے رئیس سفیان بن خالد کے قتل کابدلہ لینے کیلئے یہ چال چلی تھی کہ اس بہانہ سے مسلمان مدینہ سے نکلیں تو ان پر حملہ کردیا جاوے اوربنو لحیان نے اس خدمت کے معاوضہ میں عضل اور قارۃ کے لوگوں کیلئے بہت سے اونٹ انعام کے طور پر مقرر کئے تھے۔جب عضل اورقارۃ کے یہ غدار لوگ عسفان اورمکہ کے درمیان پہنچے تو انہوں نے بنو لحیان کوخفیہ خفیہ اطلاع بھجوادی کہ مسلمان ہمارے ساتھ آرہے ہیںتم آجائو۔جس پر قبیلہ بنو لحیان کے دوسو نوجوان جن میں سے ایک سو تیر انداز تھے مسلمانوں کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے اورمقام رجیع میں ان کو آدبایا۔صحابہ ایک ٹیلے پر چڑھ گئے اور مقابلہ کیا ۔ دس میں سے سات شہید ہو گئے۔ تین صحابہ خُبیب بن عدی ، زید بن وثنہ، عبد اللہ بن طارق کو اُنہوں نے جھوٹ بول کر ٹیلے سے نیچے اُتارا کہ ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے۔ لیکن اُترتے ہی اُنہیںقید کرلیا گیا۔ عبد اللہ نے جانے سے انکار کیا تو انہوں نے عبد اللہ کو راستے میں ہی قتل کردیا۔ بنولحیان کا انتقام پورا ہوچکا تھا ۔ اب وہ قریش کو خوش کرنے کیلئے نیز روپے کی لالچ سے خبیب اورزید کوساتھ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوگئے اوروہاں پہنچ کر انہیں قریش کے ہاتھ فروخت کردیا۔ چنانچہ خبیب کوتو حارث بن عامر بن نوفل کے لڑکوں نے خرید لیاکیونکہ خبیب نے بدر کی جنگ میں حارث کو قتل کیا تھا۔ اور زید کو صفوان بن امیہ نے خریدلیا۔خُبیب اور زید ہر دو کی شہادت کے واقعات نہایت ایمان افروز ہیں۔ صفوان بن امیہ اپنے قیدی زید بن وثنہ کوساتھ لے کر حرم سے باہر گیا۔رئوساء قریش کا ایک مجمع ساتھ تھا۔باہر پہنچ کرصفوان نے اپنے غلام نسطاس کو حکم دیا کہ زید کو قتل کردو۔ نسطاس نے آگے بڑھ کر تلوار اٹھائی۔اس وقت ابوسفیان بن حرب رئیس مکہ نے جو تماشائیوں میں موجود تھا آگے بڑھ کر زید سے کہا۔’’سچ کہو کیا تمہارا دل یہ نہیں چاہتا کہ اس وقت تمہاری جگہ ہمارے ہاتھوں میں محمدہوتا جسے ہم قتل کرتے اورتم بچ جاتے اوراپنے اہل وعیال میں خوشی کے دن گزارتے؟‘‘زید کی آنکھوں میں خون اترآیا اوروہ غصہ میں بولے۔ ’’ابوسفیان تم یہ کیا کہتے ہو۔خدا کی قسم میں تو یہ بھی نہیں پسند کرتا کہ میرے بچنے کے عوض رسول اللہ کے پائوں میں ایک کانٹا تک چبھے۔‘‘ابوسفیان بے اختیار ہوکر بولا۔’’واللہ میں نے کسی شخص کو کسی شخص کے ساتھ ایسی محبت کرتے نہیں دیکھا جیسی کہ اصحاب محمدکو محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) سے ہے۔‘‘اس کے بعد نسطاس نے زید کو شہید کردیا۔( سیرت خاتم النّبیین صفحہ 513 تا 516)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :-
اُحد کی جنگ کے بعد’’جب اِسلامی لشکر واپس مدینہ کی طرف لوٹا تو اُس وقت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت اور اِسلامی لشکر کی پراگندگی کی خبر مدینہ پہنچ چکی تھی۔ مدینہ کی عورتیں اور بچے دیوانہ وار اُحدکی طرف دَوڑے جا رہے تھے۔ اکثر کو تو راستہ میں خبر مل گئی اور وہ رُک گئے، مگر بنو دینار قبیلہ کی ایک عورت دیوانہ وار آگے بڑھتے ہوئے اُحد تک جا پہنچی۔ جب وہ دیوانہ وار اُحد کے میدان کی طرف جار ہی تھی اُس عورت کا خاوند اور بھائی اور باپ اُحد میں مارے گئے تھے اور بعض روایتوں میں ہے کہ ایک بیٹا بھی مارا گیا تھا۔ جب اُسے اُس کے باپ کے مارے جانے کی خبر دی گئی تو اُس نے کہا مجھے بتائو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ چونکہ خبر دینے والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مطمئن تھے وہ باری باری اُسے اس کے بھائی اور خاوند اور بیٹے کی موت کی خبر دیتے چلے گئے مگر وہ یہی کہتی چلی جاتی تھی ’’مَا فَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم‘‘ ارے ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا؟ بظاہر یہ فقرہ غلط معلوم ہوتا ہے اور اسی وجہ سے مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اُس کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہوا۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ فقرہ غلط نہیں بلکہ عورتوں کے محاورہ کے مطابق بالکل درست ہے۔ عورت کے جذبات بہت تیز ہوتے ہیں اور وہ بسااوقات مُردوں کو زندہ سمجھ کر کلام کرتی ہے۔ جیسے بعض عورتوں کے خاوند یا بیٹے مر جاتے ہیں تو اُ ن کی موت پر اُن سے مخاطب ہو کر وہ اِس قسم کی باتیں کرتی رہتی ہیں کہ مجھے کس پر چھوڑ چلے ہو؟ یا بیٹا! اس بڑھاپے میں مجھ سے کیوں منہ موڑ لیا؟ یہ شدتِ غم میں فطرتِ انسا نی کا ایک نہایت لطیف مظاہرہ ہوتا ہے۔ اِسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبرسن کر اُس عورت کا حال ہوا۔ وہ آپ کو فوت شدہ ماننے کیلئے تیار نہ تھی اور دوسری طر ف اِس خبر کی تردید بھی نہیں کر سکتی تھی۔ اس لئے شدت ِغم میں یہ کہتی جاتی تھی ارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیا کیا۔ یعنی ایسا وفادار انسان ہم کو یہ صدمہ پہنچانے پر کیونکر راضی ہو گیا۔
جب لوگوں نے دیکھا کہ اُسے اپنے باپ، بھائی اور خاوند کی کوئی پرواہ نہیں تو وہ اسکے سچے جذبات کو سمجھ گئے اور اُنہوں نے کہا فلانے کی اماں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو جس طرح تُو چاہتی ہے خدا کے فضل سے خیریت سے ہیں۔ اس پر اُس نے کہامجھے دکھائو وہ کہاں ہیں؟ لوگوں نے کہا آگے چلی جائو وہ آگے کھڑے ہیں۔ وہ عورت دوڑ کر آپ تک پہنچی اور آپ کے دامن کو پکڑ کر بولی یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، جب آپ سلامت ہیں تو کوئی مرے مجھے کوئی پرواہ نہیں۔
مَردوں نے جنگ میں وہ نمونہ ایمان کا دکھایا اور عورتوں نے یہ نمونہ اخلاص کا دکھایا، جس کی مثال میں نے ابھی بیان کی ہے۔ عیسائی دنیا مریم مگد لینی اور اس کی ساتھی عورتوں کی اِس بہادری پر خوش ہے کہ وہ مسیح کی قبر پر صبح کے وقت دشمنو ں سے چھپ کر پہنچی تھیں۔ میں اُن سے کہتا ہوںآئو اور ذرا میرے محبوب کے مخلصوں اور فدائیوں کو دیکھو کہ کن حالتوں میں اُنہوں نے اُس کا ساتھ دیا اور کن حالتوں میں اُنہوں نے توحید کے جھنڈے کو بلند کیا۔
اِس قسم کی فدائیت کی ایک اور مثال بھی تاریخوں میں ملتی ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہدا ء کو دفن کر کے مدینہ واپس گئے تو پھر عورتیں اور بچے شہر سے باہر استقبال کیلئے نکل آئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُونٹنی کی باگ سعد بن معاذؓ مدینہ کے رئیس نے پکڑی ہوئی تھی اور فخر سے آگے آگے دوڑے جاتے تھے شاید دُنیا کو یہ کہہ رہے تھے کہ دیکھا ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیریت سے اپنے گھر واپس لے آئے۔ شہر کے پاس اُنہیں اپنی بڑھیا ماں جس کی نظر کمزور ہو چکی تھی آتی ہوئی ملی۔ اُحد میں اُس کا ایک بیٹا عمرو بن معاذؓ بھی مارا گیا۔ اُسے دیکھ کر سعد بن معاذؓ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! اُمّی۔ اَے اللہ کے رسول! میری ماں آرہی ہے۔ آپ نے فرمایا خد ا تعالیٰ کی برکتوں کے ساتھ آئے۔ بڑھیا آگے بڑھی اور اپنی کمزور پھٹی آنکھوں سے اِدھر اُدھر دیکھا کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل نظر آجائے۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ پہچان لیا اور خوش ہو گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مائی! مجھے تمہارے بیٹے کی شہادت پر تم سے ہمدردی ہے۔ اِس پر نیک عورت نے کہا۔ حضور! جب میں نے آپ کو سلامت دیکھ لیا تو سمجھو کہ میں نے مصیبت کو بھون کر کھا لیا۔ ’’ مصیبت کو بھون کر کھا لیا۔‘‘ کیا عجیب محاورہ ہے۔ محبت کے کتنے گہرے جذبات پر دلالت کرتاہے غم انسان کو کھا جاتا ہے۔ وہ عورت جس کے بڑھاپے میں اُس کا عصائے پیری ٹوٹ گیا کس بہادری سے کہتی ہے کہ میرے بیٹے کے غم نے مجھے کیا کھانا ہے جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیںتو میں اس غم کو کھا جائو ں گی۔ میرے بیٹے کی موت مجھے مارنے کا موجب نہیں ہوگی بلکہ یہ خیال کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے اُس نے جان دی میری قوت کے بڑھانے کا موجب ہو گا۔ اَے انصار! میری جان تم پر فدا ہو تم کتنا ثواب لے گئے۔‘‘(نبیوں کا سردار صفحہ 91 تا93، مطبوعہ قادیان 2001ء)
سارے ہی مہاجر و انصار اللہ اور اسکے رسول کی خاطر جان فدا کرنے کو ہر وقت تیار رہتے تھے۔ جب جسکو موقع ملا اُس نے خوشی سے جان نچھاور کی۔جسکا نقشہ قرآن کریم نے دو الفاظ میں اس طرح کھینچا ہے مِنْہُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَہٗ وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ۔ حضرت سعد بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ کی فدائیت کا نمونہ ملاحظہ فرمایئے۔ جب مہاجر مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آئے اور آنحضرت ﷺ نے ہر مہاجر کو ایک ایک انصار کا بھائی بنایا تو انصار نے اُن سے اپنے حقیقی بھائیوں سے زیادہ محبت کی اور وہ اپنی نصف جائیداد اُن کے حوالہ کرنے پر مصر تھے۔ لیکن ایک انصاری صحابی ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنے مہاجر بھائی عبدالرحمٰن بن عوف سے یہ بھی کہا کہ مَیں اپنی ایک بیوی کو طلاق دیتا ہوں عدت کے بعد تم ان سے نکاح کرلو۔ یہ صحابی سعد بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ تھے۔جو شخص اپنے منہ بولے بھائی کیلئے اس قدر فدائیت کا نمونہ دکھا سکتا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے اُسکے جذبات کا کیا عالم ہوگا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنگ اُحد کے موقع پر جبکہ لڑائی ختم ہوگئی اور شہداء کی تدفین اورزخمیوں کی خبرگیری کا کام چل رہا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’کوئی جا کر دیکھے کہ سعد بن الربیع رئیسِ انصار کا کیا حال ہے آیا وہ زندہ ہیں یا شہید ہو گئے؟ کیونکہ میں نے لڑائی کے وقت دیکھاتھا کہ وہ دشمن کے نیزوں میں بری طرح گھرے ہوئے تھے۔ آپؐکے فرمانے پر ایک انصاری صحابی ابیّ بن کعب گئے اورمیدان میں ادھر ادھر سعد کو تلاش کیا مگر کچھ پتہ نہ چلا۔آخر انہوں نے اونچی اونچی آوازیں دینی شروع کیں اور سعد کا نام لے لے کر پکارا مگر پھربھی کوئی سراغ نہ ملا۔مایوس ہوکر وہ واپس جانے کو تھے کہ انہیں خیال آیا کہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کانام لے کر توپکاروںشاید اس طرح پتہ چل جاوے۔ چنانچہ انہوں نے بلند آواز سے پکار کرکہا۔سعد بن ربیع کہاں ہیں مجھے رسول اللہ نے ان کی طرف بھیجا ہے۔اس آواز نے سعد کے نیم مردہ جسم میں ایک بجلی کی لہر دوڑا دی اورانہوں نے چونک کر مگر نہایت دھیمی آواز میں جواب دیا۔’’کون ہے میں یہاں ہوں۔‘‘ابیّ بن کعب نے غورسے دیکھا تو تھوڑے فاصلہ پر مقتولین کے ایک ڈھیر میں سعد کو پایا جواس وقت نزع کی حالت میں جان توڑ رہے تھے۔ابیّ بن کعب نے ان سے کہا کہ مجھے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس لئے بھیجا ہے کہ میں تمہاری حالت سے آپؐکو اطلاع دوں۔سعد نے جواب دیا کہ رسول اللہ سے میرا سلام عرض کرنا اورکہنا کہ خدا کے رسولوں کوجو ان کے متبعین کی قربانی اوراخلاص کی وجہ سے ثواب ملا کرتا ہے خداآپؐ کووہ ثواب سارے نبیوں سے بڑھ چڑھ کرعطافرمائے اورآپؐکی آنکھوں کوٹھنڈا کرے اورمیرے بھائی مسلمانوں کوبھی میرا سلام پہنچانا اور میری قوم سے کہنا کہ اگرتم میں زندگی کادم ہوتے ہوئے رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف پہنچ گئی تو خدا کے سامنے تمہارا کوئی عذر نہیں ہوگا۔یہ کہہ کر سعد نے جان دے دی۔‘‘ (سیرت خاتم النّبیین صفحہ 501)
جنگ بدر کے موقع پر ایک انصاری صحابی نے آنحضرت ﷺ سے جبکہ آپؐبار بار مشورہ طلب فرمارہے تھے کہا: ’’ہم موسیٰ کے ساتھیوں کی طرح آپ سے یہ نہیں کہیں گے اِذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَاِنَّا ھٰھُنَاقَا عِدُوْنَ تُواور تیرا ربّ جائو اور دشمن سے جنگ کرتے پھرو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں، بلکہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اوربائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اوریا رسول اللہ! دشمن جو آپ کو نقصان پہنچانے کیلئے آیا ہے وہ آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں پر سے گزرتا ہوا نہ جائے۔یا رسول اللہ!جنگ تو ایک معمولی بات ہے، یہاں سے تھوڑے فاصلہ پر سمندر ہے آپ ہمیں حکم دیجئے کہ سمند رمیں اپنے گھوڑے ڈال دو اورہم بِلا دریغ سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دیں گے۔
یہ وہ فدائیت اور اخلاص کا نمونہ تھا جس کی مثال کوئی سابق نبی پیش نہیں کر سکتا۔ موسیٰ کے ساتھیوں کا حوالہ تو اُن لوگوں نے خود ہی دے دیا تھا حضرت مسیح کے حواریوں نے دشمن کے مقابلہ میں جو نمونہ دکھایا انجیل اِس پر گواہ ہے۔ ایک نے تو چند روپوں پر اپنے اُستاد کو بیچ دیا۔ دوسرے نے اُس پر لعنت کی اور باقی دس اُ س کو چھوڑ کر اِدھر سے اُدھر بھاگ گئے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے ساتھی صرف ڈیڑھ سال کی صحبت کے بعد ایمان میں اتنے پختہ ہو گئے کہ وہ اُن کے کہنے پر سمندر میں کودنے کیلئے بھی تیار تھے۔‘‘(نبیوں کا سردار صفحہ74، مطبوعہ قادیان 2001ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو جنگی قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائی تھی۔صحابہ اپنے محبوبؐکی باتوں پر کس طرح عمل کرتے تھے ملاحظہ فرمائیں:
’’صحابہؓ نے جن کو اپنے آقا کی ہر خواہش کے پورا کرنے کا عشق تھاآپؐکی اس نصیحت پر اس خوبی کے ساتھ عمل کیا کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔چنانچہ خود ان قیدیوں میں سے ایک قیدی ابوعزیز بن عمیرکی زبانی روایت آتی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم کی وجہ سے انصار مجھے تو پکی ہوئی روٹی دیتے تھے،لیکن خود کھجور وغیرہ کھا کرگزارہ کرلیتے تھے اور کئی دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ ان کے پاس اگر روٹی کا چھوٹا ٹکڑا بھی ہوتا تھا تو وہ مجھے دے دیتے تھے اور خود نہیں کھاتے تھے اوراگر میں کبھی شرم کی وجہ سے واپس کردیتا تھاتووہ اصرار کے ساتھ پھرمجھی کو دے دیتے تھے۔‘‘(سیرت خاتم النّبیین صفحہ365)
’’ آپؐنے قیدیوں کے آرام وآسائش کے متعلق ایسے تاکیدی احکام صادرفرمائے کہ ان سے متأثرہوکر صحابہ نے اپنی قمیصیں اتاراتار کر قیدیوں کوہاں اپنے خون کے پیاسے قیدیوں کودے دیں۔ خود خشک کھجوروں پر گزارہ کیا۔اورانہیں پکاہواکھانا دیا۔ آپ پیدل چلے اور انہیں سوار کیا۔ کیا دنیا کی کسی قوم میں کسی زمانہ میں اس کی مثال ملتی ہے؟ ‘‘ (سیرت خاتم النّبیین صفحہ 411)
عشق و محبت کی کچھ انوکھی داستان مزید ملاحظہ فرمائیے ۔
حضرت اسید بن حُضَیر انصاری رضی اللہ عنہ کے بارہ میں روایت ہے کہ وہ بڑے بامذاق آدمی تھے ایک دن لوگوں میں بیٹھے ہنسی مذاق کی باتیں کر رہے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پہلو میں(محبت سے) اپنی چھڑی چبھوئی ۔ اس پر وہ کہنے لگے حضوؐر میں نے تو بدلہ لینا ہے ۔ حضوؐر نے فرمایا اچھا آؤ اور بدلہ لے لو۔ اس پر وہ کہنے لگے۔ حضوؐر آپ نے تو قمیص پہنی ہوئی ہے اور میں تو ننگے بدن ہوں اس پر حضوؐر نے بدلہ دینے کیلئے اپنی قمیص کو اوپر اٹھایا۔ اسید بن حُضَیر حضوؐر سے لپٹ گئے اور جسدِمبارک کے بوسے پر بوسے لینے لگے اور کہنے لگے کہ حضور میرا تو یہ مقصد تھا ۔ (میںنے تویہ برکت حاصل کرنے کیلئے دل میں یہ تدبیر سوچی تھی)(حدیقۃ الصالحین، حدیث نمبر 72، مصنفہ ملک سیف الرحمٰن صاحب)
ضمناً عرض ہے کہ اُسَید بن حُضَیر’’ قبیلہ اوس کے خاندان بنو عبدالاشھل سے تھے اور اکابر صحابہ میں شمار ہوتے تھے۔ ان کا والد جنگِ بُعاث میں قبیلہ اوس کا قائد اعظم تھا۔ اُسَید نہایت مخلص اور نہایت سمجھدار تھے۔ حضرت عائشہؓ فرمایا کرتی تھیں کہ انصار میں سے تین اشخاص اپنی افضلیت میں جواب نہیں رکھتے تھے یعنی اُسَید بن الحُضیر- سعد بن معاذ اور عَبَّادْ بِنْ بِشْر اور اس میں شُبہ نہیں کہ اُسید بڑے پائے کے صحابی تھے۔ حضرت ابو بکر ؓ اُسَید کی بڑی عزت کرتے تھے۔ ‘‘ (سیرت خاتم النّبیین صفحہ 229)
حدیبیہ کے مقام پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے اپنے عشق و محبت کا جس رنگ میں مظاہرہ کیا اس کی نظیر بھی کسی اور جگہ نہیں مل سکتی۔ اس موقع پر کفار کا ایک بہت بڑا رئیس بھی موجود تھا۔ اور اس نے خود وہ نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس قدر اس سے متاثر ہوا کہ وہ قریش کے پاس جاکر کہنے لگا :
وَاللہِ لَقَدْ وَفَدْتُّ عَلَی الْمُلُوْکِ وَ وَفَدْتُ عَلٰی قَیْصَرَ وَ کِسْرٰی وَالنَّجَاشِیِّ وَاللہِ اِنْ رَاَیْتُ مَلِکًا قَطُّ تَعَظَّمَہٗ اَصْحَابُہٗ مَا یُعَظِّمُ اَصْحَابُ مُحَمَّدٍ مُحَمَّدًا وَاللہِ اَنْ یَّتَنَخَّمَ نَخَامَۃً اِلَّا وَقَعَتْ فِیْ کَفِّ رَجُلٍ مِّنْہُمْ فَدَلَّکَ بِہَا وَجْہَہٗ وَجَلْدَہٗ وَاِذَا اَمَرَہُمُ ابْتَدَرُوْا اَمْرَہٗ وَاِذَا تَوَضَّاءَ کَادُوْا یَقْتَتِلُوْنَ عَلٰی وَضُوْئِہٖ وَاِذَا تَکَلَّمَ خَفِضُوْا اَصْوَاتَہُمْ عِنْدَہٗ وَمَا یَحِدُّوْنَ النَّظْرَ اِلَیْہِ تَعْظِــیْـمًا لَّہٗ وَاِنَّہٗ قَدْ عَرَضَ عَلَیْکُمْ خُطَّۃَ رُشْدٍ فَاقْبَلُوْہَا۔
(زرقانی علی المواہب، ج۲، ص ۱۹۲، بخاری: ۲۷۳۱ )
خدا کی قسم! مجھے بادشاہوں کے دربار میں جانے کا اتفاق ہوا ہے اور میں نے قیصرو کسریٰ اور نجاشی کے دربار بھی دیکھے ہیں۔ خدا کی قسم میں نے ہرگز کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کے اصحاب اس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی تعظیم اصحاب محمد، محمد (ﷺ) کی کرتے ہیں۔ واللہ! وہ رینٹ یا تھوک یا بلغم نہیں پھینکتے مگر وہ ان میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ پر ہوتی ہے اوروہ اس کو اپنے منہ اور بدن پر مل لیتا ہے اور جب وہ کوئی حکم کرتے ہیں تو وہ تعمیل کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب وہ وضو کرتے ہیں تو وضو کے پانی پر وہ اس طرح ٹوٹ پڑتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپس میں لڑ مریں گے اور جب وہ بات کرتے ہیں تو سب اپنی آوازیں پست کر لیتے ہیں اور ان کی تعظیم و توقیر کی وجہ سے کوئی ان کی طرف تیز نگاہی سے نہیں دیکھ سکتا۔ انہوں نے تم پر رشد و ہدایت کا کام پیش کیا ہے تو تم اس کو قبول کر لو۔
یہ محبت صرف بیرونی واقفیت رکھنے والے صحابہ اور صحابیات کے دلوں میں ہی نہیں پائی جاتی تھی بلکہ اہلی اور خانگی زندگی کی واقف و رازدان بیویاں اس سے بھی زیادہ محبت و الفت رکھتی تھیں۔ چنانچہ حضرت اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں ان کا باپ (حضرت ابوسفیانؓ-ناقل)ایک بڑی مدت کے بعد انہیں ملنے کے لئے آیا۔ وہ چونکہ ابھی تک داخل اسلام نہیں ہوئے تھے اس لئے جب وہ ملنے آئے اور ایک بستر پر بیٹھنے لگے تو اُن کی بیٹی حضرت ام حبیبہؓنے وہ بستر جلدی سے اُن کے نیچے سے کھینچ لیااور اس کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا۔ ان کا والد یہ دیکھ کر بہت حیران ہوااور کہنے لگا یَا بُنَیَّۃُ مَا اَدْرِیْ اَ رَغِبْتِ لِیْ عَنْ ھٰذَا الْفِرَاش اَمْ رَغِبْتِ بِہٖ عَنِّیْ۔کہ اے میری بیٹی مجھے یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ بستر تُو نے میرے نیچے سے اس لئے کھینچا ہے کہ یہ عمدہ بستر کہیں خراب نہ ہوجائے یا تُو نے میری ایسی اعلیٰ شان سمجھی ہے کہ تیرے نزدیک یہ معمولی اور حقیر بستر میرے بیٹھنے کے قابل نہیں۔ یہ بات سن کر اُمّ حبیبہ کہنے لگیں بَلْ ھُوَ فِرَاشُ رَسُوْلِ اللہِ وَاَنْتَ مُشْرِکٌ نَجَسٌ۔کہ نہیں ان دونوں باتوں میں سے کوئی بات نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر ہے اور آپ مشرک نجس ہیں۔ آپ کی یہ شان کب ہے کہ آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر مبارک پر بیٹھیں۔
ان کا باپ غصہ میں کہنے لگا وَاللہِ لَقَدْ اَصَابَکَ بَعْدِیْ شَرٌّ (زاد المعاد جلداوّل)کہ خدا کی قسم تجھے تو گمراہی لاحق ہوگئی ہے ورنہ میرے پاس تو تیرے ایسے خیالات ہرگز نہ تھے۔ حضرت امّ حبیبہؓ پھر بولیں کہ میرے باپ اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام کی ہدایت دی ہے وَاَنْتَ تَعْبُدُ حَجَرًا لَا یَسْمَعُ وَلَایُبْصِرُ وَا عَجَبًا مِنْکَ یَا اَبَتِ وَاَنْتَ سَیِّدُ قُرَیْشٍ وَکَبِیْرَھَا۔ (سیرۃ الحلبیہ جلد 3 صفحہ 82)اور آپ پتھر کے اُن بے جان بُتوں کو پوجتے ہیں جو نہ سنتے ہیں اور نہ دیکھتے ہیں ۔ اَے میرے باپ آپ تو قریش کے سردار ہیں کچھ عقل اور سمجھ سے بھی کام لیں اور بتوں کی پرستش چھوڑدیں۔ ان کا باپ اس کا کیا جواب دے سکتا تھا ۔ تھوڑی دیر ٹھہرا اور پھر چلا گیا۔ (ماخوذ از الفضل 13؍اکتوبر 1938، صفحہ 4)
اللہ تعالیٰ صحابہ کے درجات بلند فرمائے کہ انہوں نے ایمان لانے کا حق ادا کردیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق عطا فرمائے کہ ہم بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ آمین۔      (منصور احمد مسرور)

…٭…٭…٭…