اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-04-27

شوّال کے روزوں کی عظیم الشان فضیلت

احادیث میں شوّال کے روزوں کی عظیم الشان فضیلت بیان ہوئی ہے۔یکم شوّال عید کا دن گزرنے کے بعد 2 شوال سے لیکر 7 شوال تک چھ روزے رکھنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔آپؐکی سنت اور متابعت میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی یہ روزے رکھا کرتےتھے۔ آپؐنے اپنی امت کو بھی ان روزوں کے رکھنے کی ترغیب دلائی ہے۔ گرچہ کہ یہ نفلی روزے ہیں لیکن نفلی عبادات کے متعلق جاننا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بندہ نفلی عبادات کے ذریعہ سے ہی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی یہ فضیلت بیان فرمائی ہے کہ رمضان کے روزے رکھنے کے بعد جو شوال کے بھی چھ روزے رکھے تو یہ ایسا ہی ہوگا جیسے اُس نے پوری زندگی کے روزے رکھے۔ اور دوسری حدیث میںآتا ہے کہ گویا اُس نے پورے سال کے روزے رکھے۔ اس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ایک مؤمن سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ بلا عذر ان عبادات کو ترک نہیں کرے گا۔ پس ہر سال اُس کے پورے سال کے روزے ہونگے اور اس طرح وہ پوری زندگی روزہ رکھنے والا قرار پائے گا۔ یہ بہت بڑا انعام ہے اور شوال کے روزوں کی عظیم الشان فضیلت ہے۔ اس تعلق میں چند احادیث پیش ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ، كَانَ كَصِیَامِ الدَّهْرِ
(مسلم کتاب الصیام باب استحباب صو م ستۃایام من شوال)
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص رمضان کے روزے رکھے پھر رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو گویا پوری زندگی اس نے روزے رکھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا كَصِیَامِ الدَّهْرِ یعنی پوری زندگی کا روزہ یا پورے زمانے کا روزہ۔ اور یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب کوئی انسان نہ تو رمضان کے روزے چھوڑے اور نہ شوال کے۔ اس طرح صیام الدہر رکھنے والااللہ کے نزدیک بہت بڑے اجر کا مستحق ہوگا۔ صیام الدہر کی یہ صورت نہایت قابل تعریف اور باعث فضیلت ہے۔ صیام الدہر کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ انسان مسلسل بغیر کسی وقفہ کے روزہ رکھتا چلا جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناپسند فرمایا ہے اور اس سے منع فرمایا ہے۔
ایک حدیث میںآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سال کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ یعنی صیام الدہر نہ کہہ کر صیام السنۃ آپؐنے فرمایا ۔ آپؐ نے فرمایا :
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ - فَشَهْرٌ بِعَشَرَۃِ أَشْهُرٍ - وَصِیَامُ سِتَّۃِ أَیَّامٍ بَعْدَ الفِطْرِ - فَذَالِكَ تَمَامُ صِیَامِ السَّنَۃِ (مسند احمد، کتاب باقی مسند الانصار، باب و من حدیث ثوبان)
یعنی جس نے رمضان کے پورے روزے رکھے ، تو یہ ایک مہینہ دس مہینے کے برابر ہوگا۔ اور پھر عید کے بعد چھ روزے رکھے، تو یہ پورے سال کے روزے ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ الانفال آیت نمبر 161 میں فرماتا ہے کہ جو شخص کہ کوئی نیکی کرتا ہے اُس نیکی کا اُس کو دس گنا ثواب ملے گا اور جو شخص کہ کوئی بدی کرتا ہے تو بدی کی سزا اُسی قدر ہوتی ہے جتنی کہ اُس نے بدی کی ۔ اس لحاظ سے ماہِ رمضان کے ایک مہینے کے روزے دس مہینے کے برابر ہوگئے۔ شول کے روزوں کی حکمت اور اس کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں  :
چونکہ خدا تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ مسلمان رمضان کے سارے مہینہ کو کامل روحانی توجہ کی حالت میں گزاریں اس لئے شریعت نے کمال دانشمندی کے ساتھ رمضان کے دونوں پہلوئوں پر نفلی روزوں کے پہرے دار کھڑے کر دیئے ہیں۔چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نفلی روزوں کے تعلق میں سب سے زیادہ زورشعبان اور شوال کے روزوں پر دیا کرتے تھے یعنی عموماً شعبان کا بیشتر حصہ نفلی روزوں میں گزار تے تھے۔اور اسی طرح عید کے بعد بھی شوال کے چھ روزے رکھا کرتے تھے۔ اس میں بھی یہی بھاری حکمت مدنظر تھی کہ اصل رمضان کے مہینہ کو توجہ کے انتشار سے بچایا جائے ۔میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آنحضرت ﷺ فداہ نفسی کو ذاتی طور پر توجہ کے انتشار کا خطرہ تھا ۔کیونکہ حق یہ ہے کہ آپکو خداتعالیٰ نے وہ عظیم الشان فطری انجن عطا کیا تھاجوپہلے قدم پر ہی پوری رفتا رپکڑ لیتا تھااور جسے رکنے سے قبل بھی رفتار دھیمی کرنیکی ضرورت پیش نہیں آتی تھی مگر چونکہ آپ نے اپنی امت کیلئے ایک سبق اور نمونہ بننا تھا اسلئے آپ نے مسلمانوں کی اصلاح اور ترقی کیلئے یہ طریق اختیار کیا کہ اہم نیک کاموں کے دونوں طرف سنتوں اور نوافل کے پہرہ دار مقرر فرمادیئے تاکہ انکے نیک اعمال کا مرکزی نقطہ ہر دو جانب توجہ کے انتشار سے محفوظ رہے۔ (مضامین بشیر، جلد2،صفحہ562،مطبوعہ 2011)
ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا: صُمْ شَوَّالًا: کہ شوال کے روزے رکھو۔پھر اُنہوں نے باقاعدگی سے ا پنی وفات تک شوال کے روزے رکھے۔حدیث کے الفاظ اس طرح سے ہیں۔
عَنْ مُحَمَّدُ بْنُ اِبْرَاھِیْمَ، اَنَّ اُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍکَانَ یَصُوْمُ اَشْھُرِ الْحُرُمِ فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صُمْ شَوَّالًافَتَرَکَ اَشْھُرِ الْحُرُمِ ثُمَّ لَمْ یَزَلْ یَصُوْمُ شَوَّالًا حَتّٰی مَاتَ ۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الصیام، باب صیام الشہرالحرم)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے شوال کے روزے رکھا کرتے تھے۔ حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آخر عمر میں بھی روزے رکھا کرتے تھے ۔خصوصًا شوال کے چھ روزے التزام کے ساتھ رکھتے تھے اور جب کبھی آپ کو کسی خاص کام کے متعلق دعا کرنا ہوتی تھی تو آپ روزہ رکھتے تھے۔‘‘ (سیرت المہدی، جلد1 صفحہ14 روایت نمبر 18)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
’’آنحضرتﷺ کا طریق تھا کہ شوال کے مہینے میں عید کا دن گزرنے کے بعد چھ روزے رکھتے تھے اس طریق کا اِحیاء ہماری جماعت کا فرض ہے۔ ایک دفعہ حضرت صاحب نے اس کا اہتمام کیا تھا کہ تمام قادیان میں عید کے بعد چھ دن تک رمضان ہی کی طرح اہتمام تھا۔ آخر میں چونکہ حضرت صاحب کی عمر زیادہ ہو گئی تھی اور بیمار بھی رہتے تھے اس لئے دو تین سال بعد آپؑنے روزے نہیں رکھے۔ جن لوگوں کو علم نہ ہو وہ سن لیں اور جو غفلت میں ہوں ہوشیار ہو جائیں کہ سوائے اُن کے جو بیمار اور کمزور ہونے کی وجہ سے معذور ہیں چھ روزے رکھیں۔ اگر مسلسل نہ رکھ سکیں تو وقفہ ڈال کے بھی رکھ سکتے ہیں ۔
(الفضل 8جون 1922ء صفحہ7 بحوالہ: خطبات محمود جلد1 صفحہ71)
اس ارشاد سے واضح ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عید کا دن گزرنے کے بعد چھ روزے مسلسل رکھتے تھے۔ اور یہی افضل صورت ہے۔ نیز یہ کہ اگر کوئی مسلسل چھ روزے نہیں رکھتا تو وقفہ وقفہ سے رکھ لے۔
ایک طفل نے سوال کیا کہ ’’شوال کے جو چھ روزے رکھے جاتے ہیں کیا وہ شوال کے مہینے میں کسی بھی وقت رکھے جاسکتے ہیں یا ان کے کوئی دن مقرر ہوتے ہیں؟
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ علیہ نے اس کے جواب میںفرمایا: ’’اِن کے دن مقرر ہیں۔ رسول اللہ ﷺ عید کے بعد وہ روزے شروع کردیتے تھے اور چھ روزے رکھا کرتے تھے۔ اس لئے وہی دن ٹھیک ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمائے ہوئے ہیں۔‘‘ یعنی یہ افضل صورت ہے۔
(اطفال سے ملاقات، ریکارڈ مؤرخہ 19جنوری 2000ء بحوالہ الفضل ربوہ مؤرخہ 21؍اپریل 2000ء۔صفحہ نمبر 3)
ایک بچی نے سوال کیا شوال کے روزے کن دنوں میں رکھنے چاہئیں؟ اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: کہ عید کے بعد لگاتار چھ رکھ سکتی ہو اور اس پورے مہینہ میں چھ رکھ سکتی ہو۔یہ ضروری ہے کہ شوال کے مہینے میں رکھنے ہیں۔شوال کے روزے شوال کے مہینے میں ہی رکھنے چاہئیں۔فرمایا: اگر تمہارے روزے رمضان میں چھوٹ جاتے ہیں، پورے نہیں رکھ سکتے تو شوال کے مہینے میں شوال کے روزے رکھ لو اور جو رمضان کے چھوٹے ہوئے روزے ہیں وہ باقی سال کے کسی دوسرے حصے میں پورے کر لو۔
( الفضل آن لائن ایڈیشن مؤرخہ 21مئی 2020ء۔صفحہ نمبر2)
جس کے رمضان کے کچھ فرض روزے چھوٹ گئے ہوں تو ایسا شخص کیا کرے۔ پہلے رمضان کے فرض روزے رکھے یا وہ شوال کے روزے رکھ سکتا ہے؟ بعض علماء کا کہنا ہے کہ فرض روزے اگر کسی کے ذمہ ہیں تو وہ فرض کو چھوڑ کر نفلی روزے نہیں رکھ سکتا۔ اصل جواب اُوپر آچکا ہے۔حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میرے ذمہ رمضان کے چھوٹے ہوئے فرض روزے ہوتے، مَیں شعبان میں ہی اُن کی قضا کرتی۔یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رمضان کے چھوٹے ہوئے آئندہ سال رمضان سے قبل شعبان کے مہینہ میں رکھتی تھیں۔ اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نفلی روزے نہیں رکھتی تھیں؟ ضرور رکھتی تھیں اور یہ حدیث سے ثابت ہے۔ پس یہ استدلال کہ فرض روزوں کے ہوتے ہوئے شوال کے نفلی روزے نہیں رکھے جاسکتے درست نہیں۔ شریعت نے فرض روزوں کی قضا کی اجازت پورے سال میں دی ہے اور شوال کے روزے صرف شوال میں ہی رکھے جاسکتے ہیں۔ پس ہمارا مسلک یہی ہے کہ شوال کے روزے شوال میں ہی لگاتار یا وقفہ کے ساتھ رکھ لئے جائیں اور رمضان کے روزے بعد میں پورے کرلئے جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں  آنحضرت ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے شوال کے روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (منصور احمد مسرور)
…٭…٭…٭…