اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-04-13

روزوں کے عظیم الشان رُوحانی فوائد
روزہ جسمانی صحت کا بھی ضامن ہے

روزوں کا عظیم الشان مقصد اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ’’ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘ بتایا ہے۔ یعنی تاکہ تُم تقویٰ اختیار کرو۔ گویا روزوں کے نتیجہ میں انسان تقویٰ میں ترقی کرتا ہے۔تقویٰ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں :
ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقاء ہے …٭… اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے
اس کا دوسرا مصرعہ الہامی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کسی میں تقویٰ ہے تو سمجھو کہ اُس میں سب کچھ ہے۔ جنہیں تقویٰ نصیب ہوجاتا ہے وہ متقی کہلاتے ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تقویٰ کی بےشمار فضیلتیں بیان فرمائی ہیں سورہ طٰہٰ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالْعَاقِبَۃُ لِلتَّقْوٰى یعنی انجام تقویٰ ہی کا بہتر ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے متقیوں سے بڑے بڑے مدارج کے وعدے کئے ہیں اور فرماتا ہے کہ وہ متقیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ چنانچہ سورہ توبہ میں دو مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ یعنی جان لو کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔گو یا روزوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ملتا ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہمیں یہی بات بتائی ہے کہ روزوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی ملاقات نصیب ہوتی ہے۔ چنانچہ آپؐنے فرمایا کہ روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہوتی ہیں ایک خوشی اُسے اس وقت ہوتی ہے جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اور دوسری خوشی اُسے اس وقت ہوگی جب وہ اپنے ربّ سے ملاقات کرے گا۔ اور یہ ملاقات دراصل اِسی دُنیا میں ہی ہوتی ہے۔ اور ایک دوسری حدیث میں جو کہ حدیث قدسی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزے کی جزا میں خود بنوں گا۔ یعنی اس کے بدلے میں مَیں اُسے ملوں گا۔ پس روزوں کا رُوحانی فائدہ عظیم الشان ہے کہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی لقانصیب ہوتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ سے ماہِ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے ۔صوفیا نے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویر قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے ۔ کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں صلوٰۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم تجلی قلب کرتا ہے ۔ تزکیہ نفس سے مُراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بعد حاصل ہوجائے اور تجلی قلب سے مُراد یہ ہے کہ کشف کا دروازہ اُس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لے ۔ ‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 561، مطبوعہ قادیان 2003)
روزوں کے بے شمار روحانی فوائد ہیںاور جب ایک مومن اُن تمام فوائد کو روزوں کے ذریعہ سمیٹتا ہے تو وہ تقویٰ میں ترقی کرتا رہتا ہے اور ایک وقت پھر ایسا آتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں اُسے اللہ تعالیٰ کی لقا بھی نصیب ہوجاتی ہے۔ پس روزوں کا سب سے بڑا روحانی فائدہ اللہ تعالیٰ کی لقا ہے۔ اس کے ساتھ روزوں کا جسمانی فائدہ بھی بہت ہے۔ اس سے صحت اچھی ہوتی ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے صُوْمُوْا تَصِحُّوْا( المعجم الاوسط ،8 /174، نمبر 8312)یعنی تم روزہ رکھو تاکہ تم صحت مند ہوجاؤ۔اس میں رُوحانی اور جسمانی ہر دو صحت کی طرف اشارہ ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں  :
بعض لوگ کہتے ہیں روزے نہیں رکھنے کہ میری صحت ٹھیک نہیں رہتی ۔یہ بالکل لغو بات ہے ۔روزوں سے ہی صحت اچھی ہوتی ہے ۔ اور کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو رمضان کو ٹھیک حالت میں گزاردے اور وہ پہلے سے بہتر نہ ہوجائے ۔ میںنے گزشتہ رمضان میں یہ ذکر کیا تھا کہ اسرائیل کے ڈاکٹرز نے غالبًا اسلام پر حملے کی نیت سے اور یہ بتانے کی خاطر کہ دیکھو روزے رکھ کر بچوں کی صحت خراب کردیتے ہیں ، بوڑھوں ، کمزوروں کی صحت خراب کردیتے ہیں، اس لئے مضر عادت ہے ایک تحقیق شروع کی ۔ اور یہ ان کو ضرور ہمیں خراج تحسین پیش کرنا چاہئے کہ تحقیق میں سچے تھے ، حملہ کی نیت بدی کی ہوگی مگر تحقیق میں سچے تھے ۔ بڑی کثرت سے انہوں نے تحقیق کی ۔ کمزوروں پر ، بوڑھوں پر ، بچوں پر ۔ اور تحقیق کا آخری نتیجہ یہ نکالا اور حیران رہ گئے کہ ہر شخص جس نے روزے رکھے ہیں اس کی صحت رمضان سے پہلے خراب تھی ، رمضان کے بعد اچھی ہوگئی ۔ تو یہ آج کی دنیا میںجو اسلام پر سختی سے تنقید کرنے والے لوگ ہیں وہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات کی گواہی دے رہے ہیں۔
فرمایا : صُوْمُوْا تَصِحُّوْا روزے رکھا کرو تمہاری صحت اچھی ہوگی لیکن مَیں سمجھتا ہوں کہ اس حدیث میں جسمانی صحت کی طرف ہی اشارہ نہیں جیسا کہ لوگ عام طور پر سمجھتے ہیں ۔ صُوْمُوْا تَصِحُّوْا سے مُراد ہے تم ٹھیک ٹھاک ہوجاؤ گے ۔ تمہیں بہت سی بدیاں لاحق ہیں ۔ تم روحانی طور پر بیمار ہو ۔ تمہیں علم نہیں ہے ۔ روزے رکھو گے تو بہت سی بیماریاں جھڑ جائیں گی اور تمہارے روحانی بدن کو بھی صحت نصیب ہوگی ۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶؍دسمبر ۱۹۹۷، الفضل انٹرنیشنل 13 فروری 1998)
سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ میں دوسرا اشارہ اس امر کی طرف کیا گیا ہے کہ اس ذریعہ سے خداتعالیٰ روزہ دار کا محافظ ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اِتَّقَاء کے معنے ہیں ڈھال بنانا، وقایہ بنانا، نجات کا ذریعہ بنانا۔ پس اس آیت کے معنے یہ ہوئے کہ تم پر روزے رکھنے اس لئے فرض کئے گئے ہیں تاکہ تم خداتعالیٰ کو اپنی ڈھال بنا لو اور ہرشرّ سے اور ہر خیر کے فقدان سے محفوظ رہو۔ ضعف دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تویہ کہ انسان کو کوئی شرّ پہنچ جائے اور دوسرے یہ کہ کوئی نیکی اس کے ہاتھ سے جاتی رہے۔ جیسے کسی کو کوئی مار بیٹھے تو یہ بھی ایک شرّ ہے۔ اور یہ بھی شرّ ہے کہ کسی کے ماںباپ اس سے ناراض ہو جائیں۔ حالانکہ اگر کسی کے والدین ناراض ہو کر اس کے گھر سے نکل جائیںتو بظاہر اس کا کوئی نقصان نظر نہیں آتا بلکہ ان کے کھانے کا خرچ بچ سکتا ہے۔ لیکن ماں باپ کی رضا مندی ایک خیر اور برکت ہے اور جب وہ ناراض ہو جائیں تو انسان ایک خیر سے محروم ہو جاتا ہے۔ اِتَّقَاء ان دونوں باتوں پر دلالت کرتا ہے اور متقی وہ ہے جسے ہر قسم کی خیر مل جائے اور وہ ہرقسم کی ذلت اور شرّ سے محفوظ رہے۔
اس سے آگے پھر شرّ کا دائرہ بھی ہر کام کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے مثلاً اگر کوئی شخص گاڑی میں سفر کر رہا ہے تو اس کا شرّ سے محفوظ رہنا یہی ہے کہ اسے کوئی حادثہ پیش نہ آئے اور وہ بحفاظت منزلِ مقصود پر پہنچ جائے۔ اسی طرح روزے کے سلسلہ میں بھی ایسے ہی خیر وشرّ مراد ہو سکتے ہیں جن کا روزے سے تعلق ہو۔ روزہ ایک دینی مسئلہ ہے یا بلحاظ صحتِ انسانی دُنیوی امور سے بھی کسی حد تک تعلق رکھتا ہے۔ پس لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ کے یہ معنے ہوئے کہ تا تم دینی اور دُنیوی شُرور سے محفوظ رہو۔ دینی خیر و برکت تمہارے ہاتھ سے نہ جاتی رہے یا تمہاری صحت کو نقصان نہ پہنچ جائےکیونکہ بعض دفعہ روزے کئی قسم کے امراض سے نجات دلانے کا بھی موجب ہو جاتے ہیں۔
آجکل کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ بڑھاپا یا ضعف آتے ہی اس وجہ سے ہیں کہ انسان کے جسم میں زائد مواد جمع ہو جاتے ہیں اور ان سے بیماری یا موت پیدا ہو تی ہے۔ بعض نادان تو اس خیال میں اس حد تک ترقی کر گئے ہیں کہ کہتے ہیں جس دن ہم زائد مواد کوفنا کرنے میں کامیاب ہو گئے اُس دن موت بھی دنیا سے اُٹھ جائیگی۔ یہ خیال اگرچہ احمقانہ ہے تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تھکان اور کمزوری وغیر ہ جسم میں زائد مواد جمع ہونے ہی سے پیدا ہوتی ہے اورروزہ اس کے لئے بہت مفید ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ صحت کی حالت میں جب روزے رکھے جائیں تو دورانِ رمضان میں بے شک کچھ کوفت محسوس ہوتی ہے مگر رمضان کے بعد جسم میں ایک نئی قوت اور تروتازگی کا احساس ہونے لگتا ہے یہ فائدہ تو صحتِ جسمانی کے لحاظ سے ہے مگر روحانی لحاظ سے اس کا یہ فائدہ ہے کہ جو لوگ روزے رکھتے ہیں خداتعالیٰ ان کی حفاظت کا وعدہ کرتا ہے۔ اسی لئے روزوں کے ذکر کے بعد خداتعالیٰ نے دعائوں کی قبولیت کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ میں اپنے بندوں کے قریب ہوں اور ان کی دعائوں کو سنتا ہوں پس روزے خداتعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والی چیز ہیں اور روزے رکھنے والا خداتعالیٰ کو اپنی ڈھال بنا لیتا ہے جو اسے ہر قسم کے دُکھوں اورشُرور سے محفوظ رکھتا ہے۔ (تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 374)
اللہ تعالیٰ ہمیں سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کرام کے ارشادات پر دل و جان سے عمل کرنے اور اُن کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ (منصور احمد مسرور)
…٭…٭…٭…