مَنْ خَرَجَ مِنَ الْجَمَاعَۃِ قَیْدَشِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَۃَ الْاِسْلَامِ مِنْ عُنُقِہٖ
جو شخص جماعت سے تھوڑاسا بھی الگ ہوا اُس نے گویا اسلام سے گلوخلاصی کرالی(حدیث)
پیارے آقا سیّدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی تھی کہ امت محمدیہ میں آخری زمانہ میں امام مہدی و مسیح موعود نازل ہونگے۔حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے دعویٰ فرمایا کہ اِس زمانے کا مجدد ، مسیح و مہدی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق مَیں ہی ہوں۔آپ نے اُمتی نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ آپؑنے فرمایا کہ میرا اپنا کچھ بھی نہیں ہے جو کچھ بھی ہے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور امتی نبی ہونے کا یہی مفہوم ہے کہ اس کا اپنا کچھ بھی نہ ہو ، سب کچھ نبی متبوع کا ہو ۔ ہمارے غیر احمدی مسلمان بھائی بھی مانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب آسمان سے نازل ہونگے تو وہ ایک امتی نبی ہونگے۔گویا امتی نبی کی آمد کے وہ بھی قائل ہیں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ قرآن مجید جابجا اُن کی وفات کا اعلان کرتا ہے لہٰذا جس عیسیٰ کے آنے کی خبر دی گئی تھی وہ دراصل اسی امت میں سے آنا تھا لیکن اُس نے چونکہ مسیح ناصری کی خُوبُو پر آنا تھا اس لئے اس کا نام مسیح رکھا گیا۔ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی وفات کے بعد 1908ء سے جماعت احمدیہ میں خلافت قائم ہے۔ اس خلافت کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سے دے رکھی تھی۔ چنانچہ ایک لمبی حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے مختلف اَدوار کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃٌ عَلٰی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ یعنی پھر خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہوگی۔ پھر آپؐ خاموش رہے اَور مزید کسی دَور کا ذکر نہیں فرمایا۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ خلافت علیٰ منہاج نبوت قیامت تک رہے گی۔ پس جماعت احمدیہ میں خلافت 115 سال سے قائم ہے۔ اس خلافت کی صداقت کا یہی ایک ثبوت کافی ہے کہ مسلمان خلافت مٹ گئی۔ خلیفۃ المسلمین بننے کے خواہشمند مٹ گئے۔ لیکن جو حقیقی خلافت ہے وہ 115 سال سے بغیر کسی اختلاف کے قائم و دائم ہے ۔ اس کی شان میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ اس کو مٹانے کی تمنا رکھنے والے مٹ گئے لیکن یہ نہ مٹی اور نہ آئندہ کبھی مٹے گی۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ نور میں امت محمدیہ میں خلافت کے قیام کا وعدہ فرمایا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۰۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَہُمْ دِيْنَہُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَہُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا۰ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا۰ۭ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۵۶(سورہ نور آیت :56)
ترجمہ :: اللہ نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور مناسب حال عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنا دے گا۔ جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنا دیا تھا۔ اور جو دین اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے وہ ان کے لئے اُسے مضبوطی سے قائم کر دے گا اور اُن کے خوف کی حالت کے بعد وہ ان کے لئے امن کی حالت تبدیل کر دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے (اور) کسی چیز کو میرا شریک نہیں بنائیں گے اور جو لوگ اس کے بعد بھی انکار کریں گے وہ نافرمانوں میں سے قرار دیئے جائیں گے۔
کوئی یہ خیال نہ کرے کہ مِنْکُمْ سے مُراد صرف صحابہ ہیں، اور اُن میںوعدہ کے مطابق خلافت قائم ہوگئی۔ حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کے توسط سے پوری اُمت محمدیہ کو خطاب ہے۔ اور امت محمدیہ میں اللہ تعالیٰ کا دائمی خلافت کا وعدہ ہے۔ اور اس نے اپنے وعدہ کے مطابق امت محمدیہ میں دائمی خلافت قائم کردی ہے جیسا کہ اُوپر ذکر ہوچکا ہے۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’ مِنْکُمْ کے لفظ سے یہ استدلال پیداکرنا کہ چونکہ خطاب صحابہ سے ہے اس لئے یہ خلافت صحابہ تک ہی محدود ہے عجیب عقلمندی ہے۔ اگر اسی طرح قرآن کی تفسیر ہو تو پھر یہودیوں سے بھی آگے بڑھ کر قدم رکھنا ہے۔ اب واضح ہو کہ مِنْکُمْ کالفظ قرآن کریم میں قریبًا بیاسی جگہ آیا ہے اور بجُز دویاتین جگہ کے جہاں کوئی خاص قرینہ قائم کیا گیا ہے باقی تمام مواضع میں مِنْکُمْ کے خطاب سے وہ تمام مسلمان مُراد ہیں جو قیامت تک پَیدا ہوتے رہیں گے۔ ‘‘ (شہادت القرآن رُوحانی خزائن جلد 6 صفحہ 331)
امت محمدیہ میں دائمی خلافت کی خوشخبری دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہٰذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولیٰ ہیں ظلی طور پر ہمیشہ کیلئے تاقیامت قائم رکھے سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تادنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے پس جو شخص خلافت کو صرف تیس برس تک مانتا ہے وہ اپنی نادانی سے خلافت کی علت غائی کو نظر انداز کرتا ہے اورنہیں جانتا کہ خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ تو ہرگز نہیں تھا کہ رسول کریمؐ کی وفات کے بعد صرف تیس برس تک رسالت کی برکتوں کو خلیفوں کے لباس میں قائم رکھنا ضروری ہے پھر بعد اس کے دنیا تباہ ہو جائے تو ہوجائے کچھ پرواہ نہیں۔ (شہادت القرآن رُوحانی خزائن جلد 6 صفحہ 353)
جیسا کہ اُوپر ذکر ہوچکا ہے جماعت احمدیہ میں 115 سال سے خلافت قائم ہے۔ یہی وہ خلافت ہے اور یہی وہ جماعت ہے جس سے جُڑنے کی آنحضرتﷺ نے تاکید فرمائی ہے اور جس سے باہر رہنا جہالت کی موت مرنا ہے۔ مسلمانوں کے لئے وہ احادیث لمحہ فکریہ ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں ایک جماعت سے جُڑ کر زندگی گزارنے کی تلقین فرمائی ہے۔ دُنیا کے پردے پر آج ایک ہی جماعت ہے جو جماعت کہلانے کی مستحق ہے اور وہ جماعت احمدیہ ہے۔ پس مسلمانوں کو اس جماعت سے جُڑ جانا چاہئے اور اُس بھیڑ کی مانند زندگی نہیں گزارنی چاہئے جو جماعت سے الگ ہوگئی ہو، جس کا کوئی نگران نہ ہو اور جو ہر وقت خطرے میں ہو۔ چنانچہ ایسی چند احادیث کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہےجن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت سے منسلک رہنے کو از بس ضروری قرار دیا ہے۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : مَنْ خَلَعَ یَدًا مِنْ طَاعَۃٍ لَقِیَ اللہَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا حُجَّۃَ لَہٗ ، وَمَنْ مَاتَ وَلَیْسَ فِیْ عُنُقِہٖ بَیْعَۃٌ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً ، وَفِیْ رِوَایَۃٍ : مَنْ مَاتَ وَھُوَ مُفَارِقٌ لِلْجَمَاعَۃِ فَاِنَّہٗ یَمُوْتُ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً۔ (مسلم کتاب الْاِمَارَۃِ بَابُ الْاَمْرِ بِلُزُوْمِ الْـجَمَاعَۃِ عِنْدَ ظُھُوْرِ الفِتَنِ، بحوالہ حدیقۃ الصالحین مصنفہ مکرم مولانا ملک سیف الرحمٰن صاحب مرحوم حدیث نمبر 631)
حضرت ابن عمررضی اللہ عنہمابیان کرتے ہیں کہ مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سُنا جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے اپنا ہاتھ کھینچا وہ اللہ تعالیٰ سے(قیامت کے دن) اس حالت میں ملے گا کہ نہ اس کے پاس کوئی دلیل ہوگی نہ عُذر ۔ اور جو شخص اس حال میں مَرا کہ اس نے امامِ وقت کی بیعت نہیں کی تھی تو وہ جاہلیت اور گمراہی کی موت مرا ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ جو اس حال میں مرا کہ وہ جماعت سے جُدا رہا۔
امام وقت کی بیعت نہ کرنا اور جماعت سے جُدا رہنا یہ دراصل ایک ہی بات ہے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؓ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ رَاٰی مِنْ اَمِیْرِہٖ شَیْئًا یَکْرَہُ فَلْیَصْبِرْ عَلَیْہِ فَاِنَّہٗ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ شِبْرًا فَیَمُوْتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً ۔
(بـخاری کتاب الفِتَن بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ سَتَرَوْنَ بَعْدِیْ اُمُورًا، بحوالہ حدیقۃ الصالحین حدیث نمبر 632)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا جو شخص اپنے سردار اور امیر میں کوئی ایسی بات دیکھے جو اسے پسندنہ ہو تو صبر سے کام لے کیونکہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھی دُور ہوتا ہےو ہ جاہلیت کی موت مرے گا ۔
عَنِ الْحَرْثِ الْاَشْعَرِیِّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِنَّ اللہَ عَزَّ وَ جَلَّ اَمَرَ یَحْییَ بْنَ زَکَرِیَّا عَلَیْھِمَا السَّلَامَ بِخَمْسِ کَلِمَاتٍ ……… وَاَنَا آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ اَللہُ اَمَرَنِیْ بِھِنَّ ، بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ فَاِنَّہٗ مَنْ خَرَجَ مِنَ الْجَمَاعَۃِ قَیْدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَۃَ الْاِسْلَامِ مِنْ عُنُقِہِ اِلَّا اَنْ یَّرْجِعَ وَمَا دَعَا بِدَعْوَی الْجَاھِلِیَّۃِ فَھُوَ مِنْ جِثَاءِ جَھَنَّمَ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللہِ وَاِنْ صَامَ وَاِنْ صَلّٰی قَالَ وَاِنْ صَامَ وَاِنْ صَلّٰی وَزَعَمَ اَنَّہٗ مُسْلِمٌ فَادْعُوا الْمُسْلِمِیْنَ بِاَسْمَائِھِمْ بِمَا سَمَّاھُمُ اللہُ عَزَّوَجَلَّ اَلْمُسْلِمِیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ عِبَادِ اللہِ عَزَّوَجَلَّ۔(مسند احمد جلد ۵، صفحہ ۱۳۰،صفحہ ۲۰۲، صفحہ ۳۴۴،بحوالہ حدیقۃ الصالحین حدیث نمبر 158)
حضرت حَرْث اشعریؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ بن زکریا علیہما السلام کو پانچ باتوں کا حکم دیا تھا …اور میں بھی تم کو ان پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں جن کا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے۔(1)جماعت کے ساتھ رہو(2)امامِ وقت کی باتیں سنو (3) اور اس کی اطاعت کرو(4)دین کی خاطر وطن چھوڑنا پڑے تو وطن چھوڑ دو(5) اور اللہ کے راستہ میں جہاد کرو ۔ پس جو شخص جماعت سے تھوڑا سا بھی الگ ہوا اس نے گویا اسلام سے گلوخلاصی کرالی ۔ سوائے اس کے کہ وہ دوبارہ نظامِ جماعت میں شامل ہوجائے ۔ اور جو شخص جاہلیت کی باتوں کی طرف بلاتا ہے وہ جہنم کا ایندھن ہے ۔ صحابہ نے عرض کیا ۔ اے اللہ کے رسول ! خواہ ایسا شخص نماز بھی پڑھتا ہو اور روزہ بھی رکھتا ہو ۔ آپؐنے فرمایا ہاں خواہ وہ نماز بھی پڑھے اور روزہ بھی رکھے اور اپنے آپکو مسلمان بھی سمجھے لیکن اَے اللہ جل شانہٗ کے بندو ! یہ بات یاد رکھو کہ (اس صورت حال کے باوجود) جو لوگ اپنے آپکو مسلمان کہیں انہیں تم بھی مسلمان کہو ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے (تعیّن کے لیے) اس اُمت کا نام مسلمان اور مومن رکھا ہے (اس لیے سرائر کو تم حوالہ بخدا کرو)
پس مندرجہ بالا احادیث سے پتا چلتا ہے کہ امام کے ساتھ جُڑ کر رہنے اور جماعت کے ساتھ رہنے کی کس قدر ہمارے پیارے آقا سیّدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی ہے۔ یہاں تک تاکید ہے کہ اگر تمہارے ساتھ ناانصافی یا زیادتی ہو تب بھی جماعت کے ساتھ رہنا ہے اور جماعت سے الگ نہیں ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے مسلمان بھائیوں کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ خلافت احمدیہ کے ساتھ اور جماعت احمدیہ کے ساتھ جُڑ کر اپنی عاقبت سنوارنے والے ہوں ۔ آمین۔یہ احادیث اُن احمدیوں کے لئے بھی ہے جو ناراض ہوکر نظام جماعت سے الگ ہوجاتے ہیںاور اپنی دُنیا و عاقبت خراب کرلیتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں ہر حال میں نظام جماعت سے منسلک رہنے اور خلافت کی دل و جان سے اطاعت کی توفیق عطا فرمائے۔
(منصور احمد مسرور)
…٭…٭…٭…