اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-09-28

(قسط:57)

سیّدناحضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالٰی بنصرہ العزیز سے پوچھے جانے والے سوالات کے بصیرت افروز جوابات

آغاز اسلام میں عرب کے معاشرہ میں دو قسم کی لونڈیاں پائی جاتی تھیں
ایک وہ جو جنگوں کے علاوہ بعض اَور ذرائع سے مسلمانوں کی ملکیت میں آئی ہوئی تھیں،ایسی لونڈیوں کےبارے میں اسلام نے تعلیم دی کہ
جو مسلمان اپنی ملکیت میں موجود لونڈی کی بہترین تعلیم و تربیت کرے اور پھر اسے آزاد کر کے اسکی مرضی سے اس سے نکاح کر لے تو ایسے مسلمان کیلئے
دوہراثواب ہے،ایسی لونڈیوں کے ساتھ کسی مسلمان کو نکاح کے بغیر جسمانی تعلق قائم کرنے کی ہر گز اجازت نہیں ہوتی تھی

وہ لونڈیاں جو رسول کریم ﷺ کے مقابل پر حملہ کرنے والے لشکر کے ساتھ ان کی مدد کرنےکیلئے ان کے ساتھ آتی تھیں
اور وہ جنگ میں قید کرلی جاتی تھیں،تو اگر وہ مکاتبت کا مطالبہ نہ کریں تو ان کو بغیر نکاح کے اپنی بیوی بنانا جائز ہے یعنی نکاح کیلئے ان کی لفظی اجازت کی ضرورت نہیں تھی

نکاح ایک اعزاز ہے جو عورت کو حاصل ہوتا ہے، لونڈی کو یہ اعزاز دینے کا کیا مطلب؟
وہ تو اس قوم سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہے جو اسلام کو مٹانےکیلئے حملہ آور ہوتی ہے، یہ دراصل اس قوم کیلئے سزا ہے جو مذہب بدلوانےکیلئے حملہ آور ہو

یہ تو انصاف اور طریق عدل سے بعید تھا کہ کافر تو جب کسی مسلمان عورت کو اپنے قبضہ میں لاویں تو اُس کو لونڈی بناویں
اور عورتوں کی طرح اُن کو استعمال کریں اور جب مسلمان اُن کی عورتوں اور اُن کی لڑکیوں کو اپنے قبضہ میں کریں تو ماں بہن کرکے رکھیں

اسلام اس بات کا حامی نہیں کہ کافروں کے قیدی غلام اور لونڈیاں بنائی جائیں
بلکہ غلام آزاد کرنے کےبارے میں اِس قدر قرآن شریف میں تاکید ہے کہ جس سے بڑھ کر متصور نہیں
غرض ابتدا غلام لونڈی بنانے کی کافروں سے شروع ہوئی اور اسلام میں بطور سزا کے یہ حکم جاری ہوا اور اُس میں بھی آزاد کرنے کی ترغیب دی گئی

 

سوال: جرمنی سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ جماعت کی ایک ویب سائٹ پر مذہبی جنگوں میں پکڑی جانے والی لونڈیوں کےبارے میں ایک آرٹیکل موجود ہے جس کے مطابق ان لونڈیوں کے ساتھ تعلق قائم کرنے سے قبل نکاح کی ضرورت نہیں، جبکہ یہ موقف حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے تفسیر کبیر میں بیان موقف کے خلاف ہے۔ نیز یہ موقف تبلیغی رابطوں اور بعض احمدیوںکیلئے بے چینی کا باعث بنتا ہے۔
اسی طرح ایک اور خاتون نے لکھا کہ قرآن کریم میں جو آیا ہے کہ’’ جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے‘‘ اس بارے میں مجھے کچھ پریشانی ہے۔میں بطور ایک عورت کے مطمئن نہیں ہو پار ہی، کیونکہ اسلام میں زنا سے منع فرمایا گیا ہےا ور وہ عورتیں بھی کسی کی بیویاں ہو سکتی ہیںاور دوسری بات یہ ہے کہ کیا ان کے ساتھ تعلق ان کی مرضی کے ساتھ ہوتا تھا یا مرضی کے بغیر بھی اجازت تھی؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوبات مورخہ 6؍ جون 2022ء اور مورخہ20؍مارچ2023ءمیں اس بارے میں درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب: اصل بات یہ ہے کہ اس مسئلہ کی اچھی طرح وضاحت نہ ہونے کی وجہ سے کئی غلط فہمیاں پیداہو گئی ہیں جن کی تردید حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنی تحریرات میں فرمائی ہے اورآپ کے خلفاء بھی حسب موقع وقتاً فوقتاً اسکی تردیدکرتے رہے اور اصل تعلیم بیان فرماتے رہے ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ اسلام برسرپیکار دشمن کی عورتوں کے ساتھ صرف اس وجہ سے کہ وہ برسر پیکار ہیں قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ جوبھی دشمن ہے ان کی عورتوں کوپکڑلاؤاور اپنی لونڈیاں بنالو۔
اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جب تک خون ریزجنگ نہ ہو تب تک کسی کو قیدی نہیں بنایاجاسکتا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ تُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا۝۰ۤۖ وَاللہُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَۃَ۝۰ۭ وَاللہُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ(الانفال: 68) کسی نبی کیلئے جائز نہیں کہ زمین میں خون ریز جنگ کیے بغیر قیدی بنائے تم دنیا کی متاع چاہتے ہو جب کہ اللہ آخرت پسند کرتا ہے اور اللہ کامل غلبہ والا (اور) بہت حکمت والا ہے۔
پس جب خون ریزجنگ کی شرط لگا دی تو پھر میدان جنگ میں صرف وہی عورتیں قیدی کے طور پر پکڑی جاتی تھیں جو محاربت کیلئے وہاں موجودہوتی تھیں۔ اس لیے وہ صرف عورتیں نہیں ہوتی تھیں بلکہ حربی دشمن کے طورپر وہاں آئی ہوتی تھیں۔
علاوہ ازیں جب اس وقت کے جنگی قوانین اوراس زمانہ کے رواج کو دیکھا جائے تو پتا چلتا ہےکہ اس زمانہ میں جب جنگ ہوتی تھی تو دونوں فریق ایک دوسرے کےافراد کو خواہ وہ مردہوں یابچے یاعورتیں قیدی کے طور پر غلام اورلونڈی بنا لیتے تھے۔اس لیےوَجَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُہَا(الشوریٰ:41)کے تحت ان کے اپنے ہی قوانین کے تابع جوکہ فریقین کو تسلیم ہوتےتھے، مسلمانوں کا ایسا کرنا کوئی قابل اعتراض امر نہیں ٹھہرتا۔خصوصاً جب اسے اس زمانہ، ماحول اورعلاقہ کے قوانین کے تناظرمیں دیکھا جائے۔اس زمانہ میں برسرپیکار فریقین اس وقت کےمروجہ قواعد اور دستورکے مطابق ہی جنگ کررہے ہوتے تھے اور جنگ کے تمام قواعدفریقین پرمکمل طورپر چسپاں ہوتے تھے، جس پر دوسرے فریق کو کوئی اعتراض نہ ہوتا تھا۔ یہ امور قابل اعتراض تب ہوتے جب مسلمان ان مسلمہ قواعدسے انحراف کر کے ایسا کرتے۔
اسکے باوجود قرآن کریم نے ایک اصولی تعلیم کے ساتھ ان تمام جنگی قواعدکو بھی باندھ دیا۔ فرمایا فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ(البقرۃ:195)یعنی جوتم پرزیادتی کرے توتم بھی اس پرویسی ہی زیادتی کرو جیسی اس نے تم پرکی ہو۔پھرفرمایا فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(المائدۃ:95) یعنی جواس کے بعد حدسے تجاوزکرے گا اس کیلئے دردناک عذاب ہوگا۔
یہ وہ اصولی تعلیم ہے جو سابقہ تمام مذاہب کی تعلیمات پربھی امتیازی فضیلت رکھتی ہے۔ بائبل اور دیگر مذاہب کی کتب مقدسہ میں موجودجنگی تعلیمات کامطالعہ کیاجائے تو ان میں دشمن کوتہس نہس کرکے رکھ دینے کی تعلیم ملتی ہے۔ مرد وعورت تو ایک طرف رہے ان کے بچوں، جانوروں اور گھروں تک کولوٹ لینے،جلادینے اور ختم کردینے کے احکامات ان میں ملتے ہیں۔لیکن قرآن کریم نے ان حالات میں بھی جبکہ فریقین کو اپنے جذبات پرکوئی قابونہیں رہتا اوردونوں ایک دوسرے کومارنے کے درپے ہوتے ہیں اور جذبات اتنے مشتعل ہوتے ہیں کہ مارنے کے بعد بھی جذبات سردنہیں پڑتے اور دشمن کی لاشوں کوپامال کرکے غصہ ٹھنڈاکیاجاتاہے، ایسی تعلیم دی کہ گویامنہ زور گھوڑوں کولگام ڈالی ہواور صحابہؓ نے اس پرایسا خوبصورت عمل کرکے دکھایا کہ تاریخ ایسے سینکڑوں قابل رشک واقعات سے بھری پڑی ہے۔
اُس زمانہ میں کفارمسلمان عورتوں کوقیدی بنالیتے اور ان سے بہت ہی نارواسلوک کرتے۔ قیدی توالگ رہے وہ تو مسلمان مقتولوں کی نعشوں کا مُثلہ کرتے ہوئے ان کے ناک کان کاٹ دیتے تھے۔ ہندہ کاحضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کاکلیجہ چبانا کون بھول سکتاہے۔لیکن ایسے مواقع پر بھی مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی کہ ہرچندکہ وہ میدان جنگ میں ہیں لیکن پھر بھی کسی عورت اورکسی بچے پرتلوارنہیں اٹھانی اور مُثلہ سے مطلقاً منع فرما کر دشمنوں کی لاشوں کی بھی حرمت قائم فرمائی۔
پھراس بارے میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ آغاز اسلام میں عرب کے معاشرہ میں دو قسم کی لونڈیاں پائی جاتی تھیں، ایک وہ جو جنگوں کے علاوہ بعض اَور ذرائع سے مسلمانوں کی ملکیت میں آئی ہوئی تھیں، ایسی لونڈیوں کےبارے میں اسلام نے تعلیم دی کہ جو مسلمان اپنی ملکیت میں موجود لونڈی کی بہترین تعلیم و تربیت کرے اور پھر اسے آزاد کر کے اس کی مرضی سے اس سے نکاح کر لے تو ایسے مسلمان کیلئے دوہراثواب ہے۔(صحیح بخاری کتاب العلم بَاب تَعْلِيمِ الرَّجُلِ أَمَتَهُ وَأَهْلَهُ)ایسی لونڈیوں کے ساتھ کسی مسلمان کو نکاح کے بغیر جسمانی تعلق قائم کرنے کی ہر گز اجازت نہیں ہوتی تھی، جیسا کہ حضور ﷺ کے مذکورہ بالا ارشاد میں بھی اس امر کی وضاحت موجود ہے کہ ایسی لونڈی کی تعلیم و تربیت کرنے کے بعد اسے آزاد کر دیا جائے۔ اور جب کوئی عورت آزاد ہو جائے تو نکاح کیلئے اس کی مرضی لازمی شرط ہے۔
اور دوسری قسم کی وہ لونڈیاں تھیں جو اس زمانہ کے حالات میں جبکہ دشمن اسلام مسلمانوں کو طرح طرح کے ظلموں کا نشانہ بناتے تھے اور اگر کسی غریب مظلوم مسلمان کی عورت ان کے ہاتھ آجاتی تو وہ اسے لونڈی کے طور پر اپنی عورتوں میں داخل کر لیتے تھے۔ چنانچہ وَجَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُہَا (الشوریٰ:41) کی قرآنی تعلیم کے مطابق ایسی عورتیں جو اسلام پر حملہ کرنے والے لشکر کے ساتھ ان کی مددکیلئے آتی تھیں اور اُس زمانہ کے رواج کے مطابق جنگ میں بطور لونڈی کےقید کر لی جاتی تھیں۔ اور پھر دشمن کی یہ عورتیں جب تاوان کی ادائیگی یا مکاتبت کے طریق کو اختیار کر کے آزادی حاصل نہیں کرتی تھیں اور انہیں مجاہدین میں تقسیم کر دیا جاتا تھا تو اس مجاہد کا اس لونڈی سے جسمانی تعلق قائم کرنا مذکورہ بالا تعلیم اور رسم و رواج کے مطابق درست ہوتا تھا۔ باقی جہاں تک ان لونڈیوں سے نکاح کا معاملہ ہےتو اس بارے میں دو آرا ہیں۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے تفسیر کبیر میں بیان فرمودہ ایک مؤقف کے مطابق ایسی لونڈیوں کے ساتھ جسمانی تعلق سے قبل نکاح ضروری تھا۔(تفسیر کبیر، جلد ششم، صفحہ130) اور یہی مؤقف حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کا بھی تھا۔(حقائق الفرقان، جلد سوم، صفحہ 418)
دوسرانقطۂ نظرجس کے مطابق مسلمانوں پر حملہ کرنے والے دشمن کے لشکر میں شامل ایسی عورتیں جب اُس زمانہ کے رواج کے مطابق مسلمانوں کے قبضہ میں بطور لونڈی کے آتی تھیں تو ان سے ازدواجی تعلقات کیلئے رسماً کسی نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، بھی غلط نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بعض اور مواقع پر ایسی لونڈیوں کےبارے میں جواب دیتے ہوئے اس موقف کو بھی بیان فرمایا ہے۔چنانچہ اس سوال کہ ’لونڈی کو بغیر نکاح کے گھر میں بمنزلہ بیوی کے رکھنا کہاں تک درست ہے۔ علماء کا فتویٰ ہے کہ لونڈی سے نکاح کی ضرورت نہیں۔ بلا نکاح تعلق رکھنا جائز ہے۔ یہ درست ہے یا نا درست؟‘ کے جواب میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:اس سوال کا جواب لونڈی کی تعریف پر منحصر ہے۔اگر لونڈیوں سے وہ لونڈیاں مراد ہوں جو رسول کریم ﷺ کے مقابل پر حملہ کرنے والے لشکر کے ساتھ ان کی مدد کرنےکیلئے ان کے ساتھ آتی تھیں اور وہ جنگ میں قید کرلی جاتی تھیں،تو اگر وہ مکاتبت کا مطالبہ نہ کریں تو ان کو بغیر نکاح کے اپنی بیوی بنانا جائز ہے یعنی نکاح کیلئے ان کی لفظی اجازت کی ضرورت نہیں تھی۔(روزنامہ الفضل قادیان دارالامان نمبر57، جلد 24، مورخہ5؍ستمبر 1936ء صفحہ 5)
پھر اس سوال کہ ’لونڈی سے نکاح کرنے یا نہ کرنے کے متعلق حضور کا کیا خیال ہے؟‘ کے جواب میں حضورؓ نےفرمایا: نکاح ایک اعزاز ہے جو عورت کو حاصل ہوتا ہے۔ لونڈی کو یہ اعزاز دینے کا کیا مطلب؟ وہ تو اس قوم سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہے جو اسلام کو مٹانےکیلئے حملہ آور ہوتی ہے۔ لونڈیاں اس قوم کی عورتیں بنائی جا سکتی ہیں جس نے مسلمانوں پر ان کا مذہب بدلوانےکیلئے حملہ کیا ہو۔ پولیٹیکل جنگ میں اگر فتح حاصل ہو تو لونڈیاں بنانا جائز نہیں۔ یہ دراصل اس قوم کیلئے سزا ہے جو مذہب بدلوانےکیلئے حملہ آور ہو۔ (اخبار الفضل قادیان دارالامان نمبر20، جلد 22، مورخہ14؍اگست 1934ء صفحہ5)
اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی بعض مجالس عرفان میں اور درس القرآن میں لونڈیوں کے مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے اسی مؤقف کو بیان فرمایا ہے کہ ان لونڈیوں سے ازدواجی تعلق استوار کرنےکیلئے رسماً کسی نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔(مجلس عرفان مورخہ9؍ فروری1994ء،مطبوعہ الفضل 24؍ اکتوبر2002ءصفحہ3،4)(مجلس عرفان مورخہ4؍نومبر1994ء مطبوعہ الفضل 4؍ دسمبر2002ء صفحہ 4)(درس القرآن مورخہ14؍جنوری1997ء)
پس قرآن و حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں میرا یہی مؤقف ہے کہ جو لونڈیاں جنگوں کے بغیر کسی اور ذریعہ سے مسلمانوں کی ملکیت میں تھیں ان کے ساتھ نکاح کے بغیر تعلقات قائم کرنا منع ہوتا تھا۔ لیکن دشمنان اسلام کی جو عورتیں اپنے لشکر کی معاونت کیلئے دشمن کے لشکر کے ساتھ آئی ہوتی تھیں اور دشمن کی شکست کے نتیجہ میں دیگر جنگی قیدیوں کے ساتھ قیدی بنتی تھیں۔ ایسی عورتوں کے ساتھ ان مسلمان مجاہدین کا جن کے حصہ میں وہ مال غنیمت کے طور پر آتی تھیں، جسمانی تعلقات کیلئے باقاعدہ کسی ایسے رسمی نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، جس میں اس لونڈی کی رضامندی ضروری ہو یا اسلامی دستور کے مطابق اسکے ولی کی رضامندی ضروری ہو، بلکہ جس طرح بہت سے قبائل اور معاشروں میں یہ طریق رائج رہاہے اور اب بھی بعض ممالک میں یہ طریق موجود ہے کہ معاشرہ میں صرف یہ بتا دیا جاتا ہے کہ ہم میاں بیوی ہیں اور یہی ایک قسم کا اعلان نکاح ہوتا ہے، اسی طرح مذکورہ بالا ان دوسری قسم کی لونڈیوں کا جنگ کے بعد مال غنیمت کی تقسیم میں کسی مجاہد کے حصہ میں آنا ان دونوں کا ایک طرح کا اعلان نکاح ہی ہوتا تھا۔ لیکن اس قسم کے نکاح کے نتیجہ میں مردکیلئے چار شادیوں تک کی اجازت پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا یعنی ایک مرد چار شادیوں کے بعد بھی مذکورہ بالا قسم کی لونڈی سے ازدواجی تعلقات قائم کر سکتا تھا۔ البتہ اگر اس لونڈی کے ہاں بچہ پیدا ہو جاتا تھا تو وہ ام الولدکے طور پر آزاد ہو جاتی تھی۔
اسلام نے لونڈیوں سے حسن سلوک کرنے، ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرنے اور انہیں آزاد کر دینے کو ثواب کا موجب قرار دیا۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے۔ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ أَيُّمَا رَجُلٍ كَانَتْ لَهُ جَارِيَةٌ فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ تَأْدِيبَهَا وَأَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا فَلَهُ أَجْرَانِ۔(صحیح بخاری، کتاب العتق، بَابُ العَبْدِ إِذَا أَحْسَنَ عِبَادَةَ رَبِّهِ وَنَصَحَ سَيِّدَهُ)یعنی نبی کریمﷺ نے فرمایا جس شخص کے پاس لونڈی ہو اور وہ اسے نہایت اچھے آداب سکھائے اور پھر اسے آزادکرکے اس سے شادی کرلے تو اس کو دوہرا ثواب ملے گا۔
اسی طرح لونڈیوں کےبارے میں یہ بھی حکم دیا کہ اگر وہ حاملہ ہوں تو ان کے ساتھ اس وقت تک تعلق قائم نہ کیا جائے جب تک کہ وہ بچہ نہ جن لیں، تا کہ ان کے ہاں پیدا ہونے والے بچہ کا نسب مشتبہ نہ ہو۔ چنانچہ رویفع بن ثابت انصاری روایت کرتے ہیں۔ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ ﷺ يَقُولُ يَوْمَ حُنَيْنٍ قَالَ لَا يَحِلُّ لِامْرِءٍ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْقِيَ مَاءَهُ زَرْعَ غَيْرِهِ۔ يَعْنِي إِتْيَانَ الْحَبَالَى۔ وَلَا يَحِلُّ لِامْرِءٍ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَقَعَ عَلَى امْرَأَةٍ مِنَ السَّبْيِ حَتَّى يَسْتَبْرِئَهَا وَلَا يَحِلُّ لِامْرِءٍ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَبِيعَ مَغْنَمًا حَتَّى يُقْسَمَ(سنن ابی داؤد کتاب النکاح باب فِي وَطْءِ السَّبَايَا)یعنی میں نے رسول اللہ ﷺکو حنین کے دن فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کیلئے جائز نہیں کہ وہ اپنا پانی کسی اور کی کھیتی میں لگائے۔ یعنی حاملہ عورتوں سے ازدواجی تعلق قائم کرے۔ اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کیلئے جائز نہیں کہ وہ قیدی عورت سے صحبت کرے جب تک کہ استبرائے رحم نہ ہو جائے۔ اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کیلئے جائز نہیں کہ وہ مال غنیمت کو تقسیم سے پہلے فروخت کرے۔
حضور ﷺ کا یہ ارشاد آزاد عورتوں اور لونڈیوں ہر دوکیلئے ہے کہ ان کے حاملہ ہونے کی صورت میں ان کے ساتھ تعلقات زوجیت قائم کرنا منع ہے۔ لیکن اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ غیر حاملہ عورت سے بغیر نکاح کے ازدواجی تعلق قائم کرنا جائز ہے۔ہرگز نہیں۔آزاد عورت کے ساتھ شادی کے بغیر تعلقات زوجیت قائم کرنا زنا ہے اور زنا کو اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہے۔
لونڈیوں کا معاملہ آزاد عورتوں سے مختلف ہے جس کی وضاحت اس خط میں بڑی تفصیل کے ساتھ کر دی گئی ہے لیکن اس حدیث کی رو سے ایسی لونڈی جو حاملہ ہو، اسکےبارے میں بھی یہی ہدایت ہے کہ جب تک وہ حمل سے فارغ نہ ہو جائے اسکا مالک اسکے ساتھ تعلقات زوجیت قائم نہ کرے۔
پس اصولی بات یہی ہے کہ اسلام انسانوں کو لونڈیاں اورغلام بنانے کے حق میں ہر گز نہیں ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں، اس وقت کےمخصوص حالات میں مجبوراً اسکی وقتی اجازت دی گئی تھی لیکن اسلام نے اور آنحضرت ﷺ نے بڑی حکمت کے ساتھ ان کو بھی آزاد کرنے کی ترغیب دی اور جب تک وہ خود آزادی حاصل نہیں کر لیتے تھے یا انہیں آزاد نہیں کر دیا جاتا تھا، ان سے حسن واحسان کے سلوک کی ہی تاکیدفرمائی گئی۔
اورجونہی یہ مخصوص حالات ختم ہوگئے اور ریاستی قوانین نے نئی شکل اختیارکرلی جیساکہ اب مروج ہے تواس کے ساتھ ہی لونڈیاں اور غلام بنانے کا جواز بھی ختم ہوگیا۔ اب اسلامی شریعت کی روسے لونڈی یاغلام رکھنے کاقطعاً کوئی جوازنہیں ہےبلکہ حکم وعدل حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے موجودہ حالات میں اس کوحرام قرار دیا ہے۔چنانچہ حضور علیہ السلام لونڈیوں کے مسئلہ پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں: رہا یہ امر کہ کافروں کی عورتوں اور لڑکیوں کو جو لڑائیوں میں ہاتھ آویں لونڈیاں بناکر اُن سے ہم بستر ہونا تو یہ ایک ایسا امر ہے جو شخص اصل حقیقت پر اطلاع پاوے وہ اس کو ہرگز محل اعتراض نہیں ٹھیرائے گا۔
اور اصل حقیقت یہ ہے کہ اُس ابتدائی زمانہ میں اکثر چنڈال اور خبیث طبع لوگ ناحق اسلام کے دشمن ہوکر طرح طرح کے دُکھ مسلمانوں کو دیتے تھے اگر کسی مسلمان کو قتل کریں تو اکثر اس میّت کے ہاتھ پیر اور ناک کاٹ دیتے تھے اور بےرحمی سے بچوں کو بھی قتل کرتے تھے اور اگر کسی غریب مظلوم کی عورت ہاتھ آتی تھی تو اُس کو لونڈی بناتے تھے اور اپنی عورتوں میں (مگر لونڈی کی طرح) اُس کو داخل کرتے تھے اور کوئی پہلو ظلم کا نہیں تھا جو انہوں نے اٹھا (نہ) رکھا تھا۔ ایک مدت دراز تک مسلمانوں کو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہی حکم ملتا رہا کہ ان لوگوں کی شرارتوں پر صبر کرو مگر آخرکار جب ظلم حد سے بڑھ گیا تو خدا نے اجازت دیدی کہ اب ان شریر لوگوں سے لڑو اور جس قدر وہ زیادتی کرتے ہیں اس سے زیادہ نہ کرو لیکن پھر بھی مُثلہ کرنے سے منع کیا یعنی منع فرمادیا کہ کافروں کے کسی مقتول کی ناک کان ہاتھ وغیرہ نہیں کاٹنے چاہئیں اور جس بے عزتی کو مسلمانوںکیلئے وہ لوگ پسند کرتے تھے اس کا بدلہ لینےکیلئے حکم دیدیا۔ اسی بنا پر اسلام میں یہ رسم جاری ہوئی کہ کافروں کی عورتیں لونڈی کی طرح رکھی جائیں اور عورتوں کی طرح استعمال کی جائیں یہ تو انصاف اور طریق عدل سے بعید تھا کہ کافر تو جب کسی مسلمان عورت کو اپنے قبضہ میں لاویں تو اُس کو لونڈی بناویں اور عورتوں کی طرح اُن کو استعمال کریں اور جب مسلمان اُن کی عورتوں اور اُن کی لڑکیوں کو اپنے قبضہ میں کریں تو ماں بہن کرکے رکھیں … پس اسی طرح جب عرب کے خبیث فطرت ایذا اور دُکھ دینے سے باز نہ آئے اور نہایت بے حیائی اور بےغیرتی سے عورتوں پر بھی فاسقانہ حملے کرنے لگے توخدا نے اُن کی تنبیہ کیلئے یہ قانون جاری کردیا کہ اُن کی عورتیں بھی اگر لڑائیوں میں پکڑی جائیں تو اُن کے ساتھ بھی یہی معاملہ کیا جائے۔ پس یہ تو بموجب مثل مشہور کہ عوض معاوضہ گلہ ندارد کوئی محل اعتراض نہیں۔ جیسےہندی میں بھی یہ مثل مشہور ہے کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی… پھر ماسوا اسکے اسلام اس بات کا حامی نہیں کہ کافروں کے قیدی غلام اور لونڈیاں بنائی جائیں بلکہ غلام آزاد کرنے کےبارے میں اِس قدر قرآن شریف میں تاکید ہے کہ جس سے بڑھ کر متصور نہیں۔ غرض ابتدا غلام لونڈی بنانے کی کافروں سے شروع ہوئی اور اسلام میں بطور سزا کے یہ حکم جاری ہوا اور اُس میں بھی آزاد کرنے کی ترغیب دی گئی۔ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن ، جلد 23، صفحہ252تا 255)
حضور علیہ السلام مزید فرماتے ہیں:یاد رہے کہ نکاح کی اصل حقیقت یہ ہے کہ عورت اور اس کے ولی کی اور نیز مرد کی بھی رضا مندی لی جاتی ہے لیکن جس حالت میں ایک عورت اپنی آزادی کے حقوق کھو چکی ہے اور وہ آزاد نہیں ہے بلکہ وہ ان ظالم طبع جنگجو لوگوں میں سے ہے جنہوں نے مسلمانوں کے مردوں اور عورتوں پر بےجا ظلم کئے ہیں تو ایسی عورت جب گرفتار ہو کر اپنے اقارب کے جرائم کی پاداش میں لونڈی بنائی گئی تو اس کی آزادی کے حقوق سب تلف ہوگئے لہٰذا وہ اب فتحیاب بادشاہ کی لونڈی ہے اور ایسی عورت کو حرم میں داخل کرنےکیلئے اس کی رضا مندی کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے جنگجو اقارب پر فتحیاب ہو کر اس کو اپنے قبضہ میں لانا یہی اس کی رضا مندی ہے۔ یہی حکم توریت میں بھی موجود ہے ہاں قرآن شریف میں فَکُّ رَقَبَۃٍ یعنی لونڈی غلام کو آزاد کرنا بڑے ثواب کا کام بیان فرمایا ہے اور عام مسلمانوں کو رغبت دی ہے کہ اگر وہ ایسی لونڈیوں اور غلاموں کو آزاد کردیں تو خدا کے نزدیک بڑا اجر حاصل کریں گے۔ اگرچہ مسلمان بادشاہ ایسے خبیث اور چنڈال لوگوں پر فتح یاب ہو کر غلام اور لونڈی بنانے کا حق رکھتا ہے مگر پھر بھی بدی کے مقابل پر نیکی کرنا خدا نے پسند فرمایا ہے۔ یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ ہمارے زمانہ میں اسلام کے مقابل پر جو کافر کہلاتے ہیں انہوں نے یہ تعدی اور زیادتی کاطریق چھوڑ دیا ہے۔ اس لئے اب مسلمانوںکیلئے بھی روا نہیں کہ ان کے قیدیوں کو لونڈی غلام بناویں کیونکہ خدا قرآن شریف میں فرماتا ہے جو تم جنگجو فرقہ کے مقابل پر صرف اسی قدر زیادتی کرو جس میں پہلے انہوں نے سبقت کی ہو پس جبکہ اب وہ زمانہ نہیں ہے اور اب کافر لوگ جنگ کی حالت میں مسلمانوں کے ساتھ ایسی سختی اور زیادتی نہیں کرتے کہ ان کو اور ان کے مردوں اور عورتوں کو لونڈیاں اور غلام بناویں بلکہ وہ شاہی قیدی سمجھے جاتے ہیں اس لئے اب اس زمانہ میں مسلمانوں کو بھی ایسا کرنا ناجائز اور حرام ہے۔ (چشمہ معرفت،روحانی خزائن، جلد23، صفحہ253حاشیہ)

(مرتبہ: ظہیر احمد خان،انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)
(بشکریہ اخبار الفضل انٹرنیشنل 24؍جون 2023)