اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-09-07

(قسط:56)

سیّدناحضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالٰی بنصرہ العزیز سے پوچھے جانے والے سوالات کے بصیرت افروز جوابات

میں تو وہی بات کہوں گا جو درست ہے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے، اور وہ صرف میری رائے نہیں ہو گی بلکہ اس کے مطابق ہو گی جو جماعتی فتویٰ ہوگا

انسان کی نیکی اگر لوگوں پر خود بخود ظاہر ہو جائے تو اس میں گھبرانے اور حیلے بہانے سے اس نیکی کو چھپانے کی ضرورت نہیں
بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتے رہنا چاہئے کہ وہ اسے شیطان کے حملہ سے محفوظ رکھے

رمضان کے جو روزے بوجہ حیض نہ رکھے جا سکیں، انہیں بعد میں پورا کر لینا کافی ہے، ان روزوں کے چھوٹ جانےسے فدیہ واجب نہیں ہوتا
باقی جو روزے کسی عذر کی وجہ سے چھوٹ جائیں انہیں بعد میں پورا کرنا ضروری ہے یہی قرآنی حکم ہے

اگر کوئی شخص ایسے عذر میں مبتلا ہو جائے کہ وہ بعد میں بھی ان روزوں کی ادائیگی نہ کر سکتا ہو تو ایسے شخص کیلئے اللہ تعالیٰ نے بصورت استطاعت فدیہ کی ادائیگی کا ارشاد فرمایا ہے

اگر کسی نے دیدہ دانستہ روزے نہیں رکھے تو پھر اس پر قضاء نہیں، جیسے جان بوجھ کر چھوڑی ہوئی نماز کی قضا نہیں
وہ جب توبہ کریگا اس کے اعمال نئے سرے سے شروع ہوں گے، اگر اس نے بھول کر روزے نہیں رکھے یا اجتہادی غلطی کی بناء پر
اس نے روزے نہیں رکھے تو اس کیلئے بہتر ہے کہ وہ روزے رکھےخواہ وہ روزے کتنے ہی دُور کے ہوں وہ دوبارہ رکھے جا سکتے ہیں

سونے یا چاندی کے دانت اگر فکس نہیں اور آسانی سے نکل سکتے ہیں تو ایسے دانت میت کے منہ سے نکالنے میں کوئی ہرج کی بات نہیں
لیکن اگر دانت فکس ہیں جیسا کہ آجکل Implant کروائے جاتے ہیں، جو پیچوں کے ساتھ منہ میں فکس کر دیےجاتے ہیں
ایسے دانتوں کا نکالنا مشکل ہوتا ہے اور نکالنے سے میت کی بظاہر بے حرمتی ہونے کا بھی امکان ہوتا ہے، اس لیے انہیں نہیں نکالنا چاہئے

بیوٹی پارلر کا کاروبار کرنا یا اس میں کام کرنا دونوں جائز ہیں، شرعاً اس کے ناجائز ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے بشرطیکہ اس میں شرعی امور کا خیال رکھا جائے

عید الفطر کے موقع پر بھی عید والے دن صبح سے نماز عید تک تکبیرات پڑھنی چاہئیں

اگر کسی والد نے اپنے بچے کی پرورش میں کوئی حصہ نہ لیا ہو تو وہ اللہ کے حضور جوابدہ ہے
لیکن جہاں تک دنیوی امور کا تعلق ہے بچے کی دستاویزات میں شرعی لحاظ سے والد کا نام ہی درج ہوگا

سیّدناحضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالٰی بنصرہ العزیز سے پوچھے جانے والے سوالات کے بصیرت افروز جوابات

سوال: کینیڈا سے ایک مربی صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں نفلی نیکی کو لوگوں سے چھپانے کےبارے میں سوال کرتے ہوئے لکھا ہے، مجھے اس بارے میں فتویٰ نہیں بلکہ حضور کی ذاتی رائے چاہئے۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 11؍مئی 2022ء میں اس بارے میں درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: بنیادی چیز تو یہ ہے کہ آپ ایک مربی سلسلہ ہو کر ایسی بات کہہ رہے ہیں کہ آپ کو فتویٰ نہیں بلکہ میری ذاتی رائے چاہئے۔ میں تو وہی بات کہوں گا جو درست ہے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے، اور وہ صرف میری رائے نہیں ہو گی بلکہ اس کے مطابق ہو گی جو جماعتی فتویٰ ہوگا۔
باقی جہاں تک آپ کے سوال کے جواب کا تعلق ہے تو اسلام نے دوسروں کے معاملہ میں تجسس اور جستجو کرنے سے منع فرمایا ہے۔ پس جو کوئی خدا تعالیٰ کی خاطر روزہ رکھتا ہے خواہ وہ نفلی روزہ ہو یا بعد میں فرض روزوں کی گنتی پورا کر رہا ہو، کسی دوسرے شخص کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اسکے اس معاملہ میں کرید کرید کر پوچھے کہ اس نے کس قسم کا روزہ رکھا ہے۔
علاوہ ازیں اسلام نے اپنے متبعین کو چھپا کر اور دکھا کر دونوں طرح سے ہی نیکیاں بجالانے کا حکم دیا ہے اور مختلف اسلامی عبادات انسان کے ظاہری اور پوشیدہ دونوں قسم کے افعال پر مشتمل ہیں اور ان دونوں طرح کی نیکیوں کے اپنی اپنی جگہ کئی فوائد ہیں۔ چنانچہ مالی قربانیوں کے تعلق میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: جو لوگ اپنے مال رات اوردن پوشیدہ (بھی) اور ظاہر (بھی) (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے رہتے ہیں ان کیلئے ان کے رب کے پاس ان کا اجر (محفوظ) ہے۔ نیز فرمایا اگر تم علی الاعلان صدقات دو تو یہ (بھی) بہت اچھا(طریق) ہے اور اگر تم وہ (صدقات) چھپا کر غریبوں کو دو تو یہ تمہارے (نفس کے) لیے زیادہ اچھا ہے۔ (سورۃ البقرہ:275،276)
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان ظاہری اور پوشیدہ دونوں طرح کی نیکیوں کو بجا لانے کے قرآنی حکم کا انجیل کی تعلیم سے موازنہ اور اس قرآنی تعلیم کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: انجیل میں کہا گیا ہے کہ تم اپنے نیک کاموں کو لوگوں کے سامنے دکھلانے کیلئے نہ کرو مگر قرآن کہتا ہے کہ تم ایسا مت کرو کہ اپنے سارے کام لوگوں سے چھپاؤ بلکہ تمحسبِ مصلحت بعض اپنے نیک اعمال پوشیدہ طور پر بجا لاؤ جب کہ تم دیکھو کہ پوشیدہ کرنا تمہارے نفس کیلئے بہتر ہے اور بعض اعمال دکھلاکر بھی کرو جب کہ تم دیکھو کہ دکھلانے میں عام لوگوں کی بھلائی ہے تا تمہیں دو بدلے ملیں اور تا کمزور لوگ کہ جو ایک نیکی کے کام پر جرأت نہیں کر سکتے وہ بھی تمہاری پیروی سے اُس نیک کام کو کر لیں۔ غرض خدا نے جو اپنے کلام میں فرمایا۔ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً یعنی پوشیدہ بھی خیرات کرو اور دکھلا دکھلا کر بھی۔ ان احکام کی حکمت اُس نے خود فرما دی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف قول سے لوگوں کو سمجھاؤ بلکہ فعل سے بھی تحریک کرو کیونکہ ہر ایک جگہ قول اثر نہیں کرتا بلکہ اکثر جگہ نمونہ کا بہت اثر ہوتا ہے۔(کشتی نوح، روحانی خزائن، جلد 19، صفحہ 31،32)
پس نیک کام بجا لانے والے کی نیت اگر نیک ہو کہ اس کی اس ظاہرکی جانے والی نیکی سے دوسروں کو بھی تحریک پیدا ہوتو حضور ﷺ کے ارشاد کہ انسانی اعمال کے ثواب و عقاب کا دارو مدار نیکی بجا لانے والے کی نیت پر منحصر ہے(صحیح بخاری، کتاب بدء الوحی) کی روشنی میں انسان کی نیکی اگر لوگوں پر خود بخود ظاہر ہو جائے تو اس میں گھبرانے اور حیلے بہانے سے اس نیکی کو چھپانے کی ضرورت نہیںبلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتے رہنا چاہئے کہ وہ اسے شیطان کے حملہ سے محفوظ رکھے اور اس میں ریا اور دکھاوا پیدا ہونے کی بجائے عاجزی اور انکساری پیدا ہو اور اس کی اس ظاہری نیکی سے دوسروں کو بھی نیکیاں بجالانے کی توفیق ملے اور ان کی نیکیوں میں بھی وہ ثواب کا حصہ دار بنے۔ کیونکہ حضور ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے إِنَّ الدَّالَّ عَلَى الْخَيْرِ كَفَاعِلِہٖ (سنن ترمذی کتاب العلم بَاب مَا جَاءَ الدَّالُّ عَلَى الْخَيْرِ كَفَاعِلِهِ) یعنی نیکی کا راستہ بتانے والا اس پر عمل کرنے والے ہی کی طرح ہوتا ہے۔

سوال: انڈیا سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں خدا تعالیٰ سے کیے جانے والے وعدوں اور رمضان کے روزوں کے حوالہ سے اپنی مختلف غلطیوں اور کوتاہیوں کو بیان کر کے ان غلطیوں کے کفارہ اور ان گناہوں کی معافی کے حوالہ سے راہنمائی چاہی۔ نیز لکھا کہ گذشتہ خط میں لکھنے والی پچاس ہزار روپے کی رقم کا مقصد اسے فدیہ میں دینا نہیں تھا؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 11؍مئی2022ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب:آپ نے جن غلطیوں کا ذکر کیا ہے اور جو فرائض چھوڑے یا انہیں پورا نہیں کیا یا جان بوجھ کر فرض روزوں کو توڑا ہے تو ان تمام امور کا تعلق حقوق اللہ سے ہے، جو اللہ تعالیٰ ہی معاف فرما سکتا ہے۔ اور اس کا مداوا اللہ تعالیٰ کے حضور سچی توبہ کرتے ہوئے جھکے رہنا اور اپنی غلطیوں پر اس کے حضور مسلسل استغفار کرتے رہنا ہے۔ اور جیسا کہ آپ نے لکھا کہ آپ کی صحت اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھی ہے، لہٰذا توبہ اور مسلسل استغفار کے ساتھ اگر آپ ان فرائض (یعنی رمضان کے جو روزے نہیں رکھے یا جان بوجھ کر انہیں پورا نہیں کیا یا انہیں توڑا ہے) کو تھوڑا تھوڑا کر کے ادا کر سکتے ہیں تو اس کی طرف بھی آپ کو توجہ کرنی چاہئے۔ اسی طرح اگر آپ اپنی ان غلطیوں اور کوتاہیوں کے کفارہ کے طور پر کچھ رقم فدیہ کے طور پر بھی ادا کرنا چاہتے ہیں تو صدقہ و خیرات کے طور پر آپ کو یہ بھی کرنا چاہئے۔
آپ کی سابقہ کوتاہیوں اور غلطیوں کو معاف کرنے،آپ کی اب بجا لائی جانے والی نیکیوں، آپ کی توبہ،استغفار اور صدقات و خیرات کو قبول کرنےکا اختیار تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔ ہاں ہم قرآنی تعلیمات، آنحضور ﷺ کے ارشادات اور آپ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بتائی ہوئی نصائح کے تحت صرف دعا کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو عقل دے، آپ کی خلوص دل سے کی گئی کوششوں میں برکت ڈالے، آپ کی توبہ و استغفار پر رحمت کی نظر ڈالتے ہوئے انہیں قبول فرمائے اور آئندہ ہر قسم کے شیطانی حملوں سے محفوظ رکھتے ہوئے آپ کواپنے عبادت گزار بندوں میں شامل فرمائے۔ آمین

سوال: اردن سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ کیا حائضہ عورت پر روزے نہ رکھنے کافدیہ واجب ہے؟کسی عذر کی وجہ سے جو روزے چھوٹ جائیں، کیا انہیں ہر حال میں پورا کرنا ضروری ہے یا معین مدت کے بعد ایسے روزے ساقط ہو جاتےہیں، جیسے اگر کوئی مریض ہو اور دو سال روزے نہ رکھ سکے تو کیا صحت یاب ہونے پر گذشتہ سارے روزے رکھنے ضروری ہیں؟حاملہ اور مرضعہ جو دو سال یا اس سے زائد عرصہ رمضان کے روزے نہیں رکھ سکتی وہ یہ روزے کیسے رکھے گی؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 16؍مئی 2022ء میں اس سوال کےبارے میں درج ذیل ارشادات فرمائے۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: حیض کا آنا عورت کی جسمانی حالت کا ایک حصہ ہے اور قرآن کریم نے اسے عورت کیلئے ایک تکلیف کی حالت قرار دیا ہے۔(سورۃ البقرہ:223) اس حالت میں اللہ تعالیٰ نے عورت کو ہر قسم کی عبادت سے رخصت دی ہے اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی رخصت سے فائدہ اٹھانا حقیقی اطاعت اور موجب ثواب ہے۔ پس رمضان کے جو روزے بوجہ حیض نہ رکھے جا سکیں، انہیں بعد میں پورا کر لینا کافی ہے، ان روزوں کے چھوٹ جانےسے فدیہ واجب نہیں ہوتا۔ لیکن اگر کوئی عورت فدیہ دینے کی طاقت رکھتی ہو اور اپنی خوشی سے ایک زائد نیکی کے طور پر فدیہ بھی دینا چاہے تو اس میں روک کوئی نہیں ہے۔ کیونکہ فدیہ کی ایک وجہ روزوں کی توفیق کا ملنا بھی ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ایک بار میرے دل میں آیا کہ یہ فدیہ کس کیلئے مقرر ہے تو معلوم ہوا یہ اس لئے ہے کہ اس سے روزہ کی توفیق ملے۔ (الحکم نمبر44، جلد6، مورخہ10؍دسمبر 192ء، صفحہ9)
باقی جو روزے کسی عذر کی وجہ سے چھوٹ جائیں انہیں بعد میں پورا کرنا ضروری ہے کیونکہ یہی قرآنی حکم ہے جیساکہ فرمایا کہ تم میںسے جو شخص اس مہینہ کو (اس حال میں) دیکھے (کہ نہ مریض ہو نہ مسافر) اسے چاہئے کہ وہ اس کے روزے رکھے اور جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہو تو اس پر اور دنوں میں تعداد (پوری کرنی واجب) ہوگی۔ اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا، اور (یہ حکم اس نے اس لئے دیا ہے کہ تم تنگی میں نہ پڑو اور) تا کہ تم تعدادکو پورا کر لو۔ (البقرۃ: 186)
لہٰذا عذر کے دور ہونے پر رمضان کےروزوں کی قضا لازمی ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص ایسے عذر میں مبتلا ہو جائے کہ وہ بعد میں بھی ان روزوں کی ادائیگی نہ کر سکتا ہو تو ایسے شخص کیلئے اللہ تعالیٰ نے بصورت استطاعت فدیہ کی ادائیگی کا ارشاد فرمایا ہے۔ جیسا کہ فرمایا اور ان لوگوں پر جو اس (یعنی روزہ) کی طاقت نہ رکھتے ہوں (بطور فدیہ) ایک مسکین کا کھانا دینا (بشرط استطاعت) واجب ہے۔ (البقرہ:185)
عذر ختم ہونے پر روزوں کی ادائیگی کرنے نیز فدیہ کی ادائیگی کےبارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:صرف فدیہ تو شیخ فانی یا اس جیسوں کے واسطے ہو سکتا ہے جو روزہ کی طاقت کبھی بھی نہیں رکھتے۔ ورنہ عوام کے واسطے جو صحت پا کر روزہ رکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں صرف فدیہ کا خیال کرنا اباحت کا دروازہ کھول دینا ہے۔ جس دین میں مجاہدات نہ ہوں وہ دین ہمارے نزدیک کچھ نہیں۔ اس طرح سے خدا تعالیٰ کے بوجھوں کو سر پر سے ٹالنا سخت گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ میری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں ان کو ہی ہدایت دی جاوے گی۔ (اخبار بدر نمبر 43، جلد نمبر 6 مورخہ24؍ اکتوبر 1907ء، صفحہ نمبر3)
پس خلاصہ کلام یہ کہ کسی عذر کی بنا پر اگر رمضان کے کچھ روزے رہ جائیں تو عذر کے دور ہونے پر ان روزوں کو بعد میں پورا کیا جائے، اور اگر توفیق ہو تو ان روزوں کے رمضان میں نہ رکھ سکنے پر فدیہ بھی ادا کر دیا جائے۔
اگرکسی کو ان روزوں کی کبھی بھی ادائیگی کی طاقت نہ ہو تو لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا (البقرہ: 287) یعنی اللہ تعالیٰ کسی جان پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا، کے تحت ایسا شخص اللہ تعالیٰ کے حضور معذور متصور ہو گا اور اگر اسے ان روزوں کے بدلہ میں فدیہ دینے کی طاقت ہو تو فدیہ ادا کر دے اور اگر فدیہ کی بھی طاقت نہ ہوتو اس معاملہ میں بھی وہ اللہ تعالیٰ کے حضور معذور ہی شمار ہو گا۔ حاملہ اور مرضعہ کیلئے بھی یہی حکم ہوگا۔
اگر کسی شخص کے ایک سال کے رمضان سے زیادہ رمضان کے مہینوں کے روزے کسی جائز عذر کی وجہ سے رہ گئے ہوں اور پھر اللہ تعالیٰ اس عذر کے دور ہونے پر اسے روزوں کی توفیق عطا فرما دے تو وہ جس قدر ان چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کر سکتا ہو اسے تھوڑے تھوڑے کر کے ان روزوں کو رکھ لینا چاہئے۔ ایک سال کے رمضان سے زیادہ رہ جانے والے روزوں کی قضا کےبارے میں مختلف نظریات ہیں۔بعض فقہاء کا خیال ہے کہ پچھلے سالوں کے چھوٹ جانے والے روزے دوسرے سال نہیں رکھے جا سکتے۔ جبکہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد اس سے مختلف ہے۔ آپؓفرماتے ہیں: میں جماعت کو یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ جن دوستوں نے رمضان کے سارے روزے نہیں رکھے وہ بعد میں روزے رکھیں اور ان کو پورا کریں۔ خواہ وہ روزے غفلت کی وجہ سے رہ گئے ہوں یا وہ روزے بیماری یا سفر کی وجہ سے رہ گئے ہوں۔ اسی طرح اگر گذشتہ سالوں میں ان سے کچھ روزے غفلت یا کسی شرعی عذر کی وجہ سے رہ گئے ہوں تو ان کو بھی پورا کرنے کی کوشش کریں تا خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے سے پہلے پہلے وہ صاف ہو جائیں۔ بعض فقہاء کا یہ خیال ہے کہ پچھلے سال کے چھوٹے ہوئے روزے دوسرے سال نہیں رکھے جا سکتے۔لیکن میرے نزدیک اگر کوئی لاعلمی کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکا تو لاعلمی معاف ہو سکتی ہے۔ہاں اگر اس نے دیدہ دانستہ روزے نہیں رکھے تو پھر اس پر قضاء نہیں، جیسے جان بوجھ کر چھوڑی ہوئی نماز کی قضا نہیں۔لیکن اگر اس نے بھول کر روزے نہیں رکھے یا اجتہادی غلطی کی بناء پر اس نے روزے نہیں رکھے تو میرے نزدیک وہ دوبارہ رکھ سکتا ہے۔ اور اس کیلئے بہتر ہے کہ وہ روزے رکھے۔ہاں اگر وہ روزہ رکھ سکتا تھا اور اس نے جان بوجھ کر روزہ نہیں رکھا تو اس پر کوئی قضا نہیں۔ وہ جب توبہ کرے گا اسکے اعمال نئے سرے سے شروع ہوں گے۔ لیکن اگر اس نے غفلت کی وجہ سے روزے نہیں رکھے یا کسی اجتہادی غلطی یا بیماری کی وجہ سے روزے نہیں رکھے تو میرے نزدیک خواہ وہ روزے کتنے ہی دور کے ہوں وہ دوبارہ رکھے جا سکتے ہیں۔ (الفضل نمبر 55، جلد 50،51 مورخہ8 ؍مارچ 1961ء صفحہ 2،3)

سوال: اردن کے اسی دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ ایک دوست نے ہماری ویب سائٹ پر یہ سوال بھجوائے ہیں کہ کیا اپنے بھائی کی مطلقہ سے شادی کرنا جائز ہے؟اگر کسی نے سونے کا دانت لگوایا ہو تو اس کی وفات کے بعد اس دانت کو نکالنا جائز ہے؟ کیا عورتوں کیلئے بیوٹی پارلر کھولنا جائز ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 6؍جون2022ء میں ان سوالات کے درج ذیل جواب عطا فرمائے۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کیلئے قرآن کریم کی سورۃ النساء آیات23 تا24 میں جن عورتوں سے نکاح کی ممانعت فرمائی ہے، ان عورتوں میں بھائی کی بیوہ یا مطلقہ سے نکاح کی کوئی ممانعت نہیں فرمائی۔ اسی طرح حدیث میں بھی حضور ﷺ نے بھائی کی بیوہ یا مطلقہ سے نکاح کرنے سے منع نہیں فرمایا۔ پس بھائی کی بیوہ سے یا اگر بھائی اپنی بیوی کو طلاق دےدے اور قرآن کریم میں بیان عدت کا عرصہ گزر جائے تو ایسی عورت سے اس کے سابقہ خاوند کے بھائی کا نکاح کر لینا جائز ہے، اس میں کوئی ممانعت نہیں۔
(2) سونے یا چاندی کے دانت اگر فکس نہیں اور آسانی سے نکل سکتے ہیں تو ایسے دانت میت کے منہ سے نکالنے میں کوئی ہرج کی بات نہیں۔ عموماً لوگ نکال لیتے ہیں۔جیسے دانتوں کا مصنوعی ڈینچر بھی مردہ کے منہ سے عموماً نکال دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر دانت فکس ہیں جیسا کہ آجکل Implant کروائے جاتے ہیں، جو پیچوں کے ساتھ منہ میں فکس کر دیےجاتے ہیں، ایسے دانتوں کا نکالنا مشکل ہوتا ہے اور نکالنے سے میت کی بظاہر بے حرمتی ہونے کا بھی امکان ہوتا ہے، اس لیے انہیں نہیں نکالنا چاہئے۔
(3) بیوٹی پارلر کا کاروبار کرنا یا اس میں کام کرنا دونوں جائز ہیں۔ شرعاً اسکے ناجائز ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے بشرطیکہ اس میں شرعی امور کا خیال رکھا جائے۔ مردوں اور عورتوں کا اختلاط نہ ہو، پارلر میں کام کرنے والی بھی عورتیں ہوں اور بناؤ سنگھار کروانے والی بھی عورتیں ہی ہوں۔ پردے کا پوری طرح سے اہتمام کیا جائے۔ صرف چہرہ یا جسم کے ایسے اعضاء کا بناؤ سنگھار ہو جن کے بناؤ سنگھار سے بےپردگی نہ ہو۔

سوال: یوکے سے ایک مربی صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ عیدالفطر کے موقع پر بھی عیدگاہ یا مسجد آتے ہوئے بلند آواز میں تکبیرات پڑھی جا سکتی ہیں؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 8؍جون2022ء میں اس مسئلہ کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: عیدالفطر اور عید الاضحیہ دونوں مواقع پر تکبیرات پڑھنا آنحضور ﷺ سے ثابت ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عید الاضحیہ پر 9؍ذی الحجہ کی فجر کے بعد سے13؍ ذی الحجہ کی نماز عصر کے بعد تک یہ تکبیرات پڑھی جاتی ہیں۔(سنن دار قطنی، کتاب العیدین ،باب 1، حدیث،1754) جبکہ عید الفطر پر آنحضورؐ اور صحابہؓ کا معمول تھا کہ آپ عید کی صبح نماز عید کیلئے گھر سے نکلنے پر تکبیرات کہنا شروع کرتے اور عید کی نماز شروع ہونے تک تکبیرات کہا کرتے تھے۔ لیکن نماز عید کے بعد تکبیرات نہیں کہی جاتی تھیں۔(سنن دار قطنی کتاب العیدین، باب1،حدیث1733 مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب صلاۃ العیدین ،باب التکبیر اذا خرج الی العید) یہی ہمارا طریق ہے اور اسی لیے کچھ عرصہ قبل میں نے احباب جماعت کو یاد دہانی کیلئے ایک سرکلر بھی کروایا تھا کہ عید الفطر کے موقع پر بھی عید والے دن صبح سے نماز عید تک تکبیرات پڑھنی چاہئیں۔

سوال: جامعہ کینیڈا کے ایک طالبعلم نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ میں اپنی شاہد کی سند پر اپنے والد صاحب کے نام کی بجائے اپنی والدہ کا نام لکھوانا چاہتا ہوں، اس کی اجازت دی جائے۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 8؍جون 2022ء میں اس بارے میں درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ بچہ کی پیدائش اور اس کی پرورش میں والد اور والدہ دونوں کا برابر کا حصہ ہوتا ہے۔ اسی لیے قرآن کریم نے بچہ کو والد اور والدہ دونوں کی طرف منسوب کیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا: لَا تُضَآرَّ وَالِدَۃٌۢ بِوَلَدِھَا وَلَا مَوْلُوْدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖ (البقرۃ: 234) کہ کسی ماں کو اس کے بچہ کے تعلق میں تکلیف نہ دی جائے اور نہ ہی باپ کو اس کے بچہ کی وجہ سے (دکھ دیا جائے)اس آیت میں بچہ کو ماں اور باپ دونوں کی ملکیت قرار دیا گیا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ جہاں بچہ کو کسی کے نام کے ساتھ پکارنے کی بات ہے تو اس بارے میں قرآن کریم نے واضح طور پر فرمایا کہ اُدْعُوْھُمْ لِاٰ بَآئِہِمْ ھُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ(سورۃ الاحزاب:6)یعنی ان (لے پالک بچوں ) کو ان کے باپوں کا بیٹا کہہ کر پکارو۔ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ فعل ہے۔
پس بے شک آپ کے والد صاحب نے آپ کی پرورش میں کوئی حصہ نہیں لیا، ان کے اس فعل کی اگر ان کے پاس کوئی جائز وجہ نہ ہوئی تو وہ یقیناً اللہ تعالیٰ کے حضور قصوروار ہوں گے، لیکن جہاں تک دنیاوی امور کا تعلق ہے آپ ان کی ہی اولاد کہلائیں گے۔ اس لیے آپ کی دستاویزات میں شرعی لحاظ سے ولدیت کے طور پر آپ کے والد صاحب کا ہی نام درج ہو گا۔

(مرتبہ: ظہیر احمد خان،انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)
(بشکریہ اخبار الفضل انٹرنیشنل 10؍مئی 2023)
…٭…٭…٭…