اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-04-06

عیدالاضحیہ کی قربانی عام حالات میں تین دن تک ہی ہو سکتی ہے لیکن اگر کوئی مجبوری ہو تو اس کے بعد بھی کی جاسکتی ہے

قرآن کریم کی ایسی تفسیر نہیں کرنی چاہئے جو خود قرآنی تعلیم، قرآن کریم میں بیان تاریخی شواہد، سنت رسول ﷺ اور احادیث نبویہ میں بیان تعلیمات کے خلاف ہو
رُوح ایک لطیف نُور ہے جو اس جسم کے اندر ہی سے پیدا ہوتا ہے،پیدا ہونے سے مراد یہ ہے کہ اوّل مخفی اور غیر محسوس ہوتا ہے پھر نمایاں ہو جاتاہے
اور ابتداءً اس کا خمیر نطفہ میں موجود ہوتا ہے،نطفہ کا وہ ایک روشن اور نوارنی جو ہر ہے، نہیں کہہ سکتے کہ وہ نطفہ کی ایسی جز ہے جیسا کہ جسم جسم کی جز ہوتا ہے
مگر یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ باہر سے آتا ہے بلکہ وہ ایسا نطفہ میں مخفی ہوتا ہے جیسا کہ آگ پتھر کے اندر ہوتی ہے
عیدالاضحیہ کی قربانی عام حالات میں تین دن تک ہی ہو سکتی ہے لیکن اگر کوئی مجبوری ہو تو اس کے بعد بھی کی جاسکتی ہے
سیّدناحضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالٰی بنصرہ العزیز سے پوچھے جانے والے سوالات کے بصیرت افروز جوابات

 

(قسط:49)
سوال: تیونس سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ قرآن کریم اور بائبل سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بھی آنحضور ﷺ کی طرح حجاز کے علاقہ مکہ اور مدینہ میں ہی بعثت ہوئی تھی۔اس بارے میں حضورکا کیا ارشاد ہے؟ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 24؍ نومبر 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: آپ نے اپنے موقف کے حق میں قرآن کریم کی بعض آیات سے جو استدلال کرنے کی کوشش کی ہے وہ آپ کی ذوقی باتیں ہیں اور ان کا تاریخ سے اس طرح ثبوت نہیں ملتا۔ نیز آپ نے بعض تاریخی واقعات کو آپس میں ملا جلا دیا ہے۔
وادی کے لفظ سے آپ کو کنفیوژن پیدا ہوئی ہے اور آپ نے اس سے مراد صرف مکہ اور حدیبیہ کی وادی ہی لیا ہے اور سورۃ القصص میں مذکورمِنْ شَاطِئِ الْوَادِ الْاَيْمَنِ ِِ میں بھی آپ کے نزدیک مکہ کی وادی ہی مراد ہے۔ حالانکہ قرآن کریم میں یہ لفظ کئی اورمقامات کے لیےبھی استعمال ہوا ہے۔ اور سورۃ القصص کی آیت مِنْ شَاطِئِ الْوَادِ الْاَيْمَنِ میں مذکور مقام کا تعلق حضرت موسیٰ کے اُس واقعہ سے ہے جب آپ اپنے سسر سے کیے گئے معاہدہ کی تکمیل کے بعد اپنے اہل کے ساتھ مدین سے کسی دوسری جگہ تشریف لے جا رہے تھے کہ راستہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ سے ہمکلام ہو کر آپ کو رسالت کے مقام پر فائز فرمایا اور آپ کو فرعون کی طرف مصر جانے کا حکم دیا۔
پھر صلح حدیبیہ کے واقعہ سے آپ نے جو استدلال کیا ہے، وہ بھی درست نہیں کیونکہ صلح حدیبیہ کے موقع پر تو حضورﷺ مکہ میں داخل ہی نہیں ہوئے تھے۔ بلکہ کفار مکہ سے ہونے والے معاہدہ کے مطابق حضورﷺ حدیبیہ سے ہی واپس مدینہ آ گئے تھے۔ اور حسب معاہدہ اس سے اگلے سال آپ ﷺ عمرہ کے لیےمکہ تشریف لے گئے تھے۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ اس سفر میں فتح مکہ کی بنیادپڑ گئی تھی اور اللہ تعالیٰ نے صلح حدیبیہ کے بعد واپسی کے سفر میں حضور ﷺ کو سورۃ الفتح کے نزول کے ساتھ مکہ کی فتح کی بشارت عطا فرمائی تھی اور صلح حدیبیہ کو فتح مبین بھی قرار دیا تھا۔
پھر وادیٔ کنعان اور وادیٔ مکہ ایک کیسے ہو سکتی ہیں؟ یہ ٹھیک ہے کہ وادی کنعان کو بھی قرآن کریم نے ارض مقدسہ ہی کہا ہے۔ لیکن یہاں تو حضرت موسیٰ کے ساتھیوں نے داخل ہونے سے انکار کر دیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر اس قوم کو چالیس سال تک اس ارض مقدسہ سے محروم کر دیا یہاں تک کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اپنے متبعین کی نافرمانی کی وجہ سے اس نعمت سے محروم رہے۔ لیکن اس کے مقابلہ پر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ایک طرف بخار اور دیگر وبائی بیماریوں والی بستی یثرب کو مدینۃ الرسول کے نام سےنئے نظم و نسق کے ساتھ آباد کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور پھر اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی آمد کی برکت سے اس کی بخار اور وبائی بیماریوں والی مسموم فضا کو خوش گوار آب و ہوا میں تبدیل فرما دیا۔ اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے دس ہزار جاںنثار اورنہایت فرمانبردار قدسیوں کے جلو میں ایک عظیم فاتح کے طور پر مکہ کی ارض مقدس میں داخل فرمایا۔ پس ان غیر معمولی برکات و فیوض الہٰیہ سے معمور ارض مقدسہ المکۃ المکرمہ کا کنعان کی بستی سے کیا موازنہ ہو سکتا ہے۔ اور ہم ان دونوں مقامات کو ایک کیسے قرار دے سکتے ہیں؟
آپ نے اپنے خط میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کے وادیٔ کنعان میں داخل ہونے سے انکار کرنے اور صحابۂ رسول ﷺ کے حضور کی خدمت میں عرض کرنے کہ ہم بنی اسرائیل کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ تو اور تیرا رب جا کے لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ بلکہ ہم آپ کے ساتھ ہو کر لڑیں گے، کے واقعہ کو صلح حدیبیہ کے موقع کا لکھا ہے جبکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ یہ واقعہ غزوۂ بدر کا ہے۔
پس جیسا کہ میں نے لکھا ہے کہ یہ سب آپ کی ذوقی باتیں ہیں، جن میں سے اکثر کی تاریخی لحاظ سے کوئی مطابقت نہیں ٹھہرتی۔ہمیشہ یاد رکھیں کہ قرآن کریم کی ایسی تفسیر اور تشریح نہیں کرنی چاہیے جو خود قرآنی تعلیم، قرآن کریم میں بیان تاریخی شواہد، سنت رسول ﷺ اور احادیث نبویہؐ میں بیان تعلیمات کے خلاف ہو۔
سوال: پاکستان سے ایک دوست نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار بھجوایا کہ نمازفجر کی اذان اور اقامت کے درمیان کتنا وقفہ ہوتا ہے؟نیز یہ کہ صحیح بخاری کی ایک حدیث سے پتا چلتا ہے کہ جتنا وقت سورۃالبقرہ کی تلاوت میں لگتا ہے اتنا وقت اذان اور اقامت کے درمیان ہونا چاہیے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 14؍دسمبر2021ء میں اس سوال کے بارے میں درج ذیل ارشادات فرمائے۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: میرے علم میں تو صحیح بخاری کی کوئی ایسی حدیث نہیں ہے جس میں یہ ذکر ہو کہ نماز فجر کی اذان اور اقامت کے درمیان اتنا وقفہ ہونا چاہیے جتنا وقت سورۃ البقرہ کی تلاوت کرنے میں لگتا ہے۔ آپ نے بخاری کی جس حدیث کا ذکر کیا ہے وہ مجھے پہلے بھجوائیں پھر اس بارے میں کوئی وضاحت کی جا سکتی ہے۔
باقی ہم یہاں مسجد مبارک میں طلوع صبح صادق (اذان فجر) سے نماز تک موسم کے اعتبار سے مختلف وقتوں میں 25 سے 40 منٹ تک کا وقفہ رکھتے ہیں۔ اور فجر کی اذان کا وقت عموماً طلوع آفتاب سے ایک گھنٹہ بیس منٹ سے ایک گھنٹہ تیس منٹ پہلے ہوتا ہے۔ اور ساری دنیا کے معتدل علاقوں میں عموماً یہی اصول چلتا ہے۔
اِس زمانہ میں سائنس کی ترقی اور جدید آلات کی ایجاد کی وجہ سے طلوع فجر، زوال آفتاب اور طلوع و غروب آفتاب کے بالکل معین اوقات کا علم ہو جاتا ہےجو پرانے زمانہ میں ممکن نہیں تھا۔
اسلام نے نمازوں کے لیےصرف ایک معین وقت کا hard and fast اصول مقرر نہیں فرمایا بلکہ اپنے متبعین کی سہولت کے لیےتمام نمازوں کے لیے ایک دورانیہ مقرر فرما دیا کہ فلاں سے فلاں وقت تک یہ نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ تاکہ لوگ اپنی سہولت کے مطابق ان اوقات کے دوران نماز باجماعت کے وقت مقرر کر سکیں۔
چنانچہ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہر نماز کا ایک اوّل وقت ہے اور ایک آخری وقت۔ ظہر کی نماز کا اوّل وقت سورج کا ڈھلنا ہے اور آخری وقت جب عصر کا وقت شروع ہوجائے۔ اور عصر کا اوّل وقت جب یہ وقت شروع ہوجائے اور آخری وقت جب سورج زرد ہو جائے۔ مغرب کا اوّل وقت غروب آفتاب پر ہے اور آخری وقت شفق کا غائب ہونا ہے۔اور عشاء کا اوّل وقت شفق کے غائب ہونے پر اور آخری وقت آدھی رات تک ہے اور فجر کا اوّل وقت صبح صادق کے طلوع ہونے پرہے اور آخری وقت سورج کا طلوع ہونا ہے۔(سنن ترمذی کتاب الصلاۃ بَاب مَا جَاءَ فِي مَوَاقِيتِ الصَّلَاۃِ)اسی طرح سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے آپؐ سے نمازوں کا وقت دریافت کیا۔ حضور ﷺ نے اسے فرمایا کہ تم دو دن ہمارے پاس رہو۔ پھر حضورﷺ نے حضرت بلال کوحکم دیا اور انہوں نے طلوع فجر کے ساتھ تکبیر کہی اور حضورﷺ نے فجر کی نماز پڑھائی۔ پھر جب سورج ڈھل گیا تو آپؐ نے حضرت بلال کوتکبیر کہنے کا حکم دیا اور پھر آپؐ نے ظہر کی نماز پڑھائی۔پھر ان کو اس وقت حکم دیا جس وقت سورج سفید تھا اور عصر کی نماز ادا فرمائی۔ پھر سورج غروب ہونے پر انہیں حکم دیا اور نماز مغرب ادا فرمائی۔ پھر جس وقت شفق غروب ہوگیا ان کو حکم دیا اور نماز عشاء ادا فرمائی۔ پھر دوسرے دن ان کو حکم دیا اور نماز فجر روشنی میں ادا فرمائی اور نماز ظہر خوب ٹھنڈے وقت میں ادا فرمائی۔ پھر آپؐ نے نماز عصر ادا فرمائی جبکہ سورج کی سفیدی موجود تھی لیکن پہلے روز سے تاخیر فرمائی۔ پھر شفق غروب ہونے سے قبل نماز مغرب ادا فرمائی۔ پھر جب رات کا ایک تہائی حصہ گزر گیا تو آپؐ نے حضرت بلال کو حکم دیا تو انہوں نے نماز عشاء کی تکبیر کہی اور آپؐ نے نماز عشاء ادا فرمائی۔ اس کے بعد آپؐ نے نماز وں کا وقت دریافت کرنے والے کے بارے میں پوچھا اوراسے فرمایا کہ تمہاری نمازوں کے وقت ان وقتوں کے درمیان کے ہیں جو تم نے دیکھے ہیں۔ (سنن نسائی کتاب المواقیت باب اَوَّلُ وَقْتِ الْمَغْرِبِ)
نماز فجر کے وقت کے بارے میں احادیث صحیحہ سے پتا چلتا ہے کہ حضور ﷺ عموماًطلوع فجر کے اتنے وقت بعدفجر کی نماز پڑھاتے تھے جس وقت میں ایک انسان پچاس ساٹھ آیتیں پڑھ لیتا ہے۔ اور پھر حضور ﷺ نماز فجر میں عموماً ساٹھ سے سو آیتوں کی تلاوت فرمایا کرتے تھے اور جب نماز سے فارغ ہوتے تو ابھی اتنا اندھیرا ہوتا تھا کہ قریب موجود انسان تو پہچانا جاتا تھا لیکن دور کا انسان نہیں پہچانا جاتا تھا۔ (صحیح بخاری کتاب مواقیت الصلاۃ باب وقت العصر۔ باب وَقْتِ الْفَجْرِ)
سوال: کینیڈا سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ نطفہ میں جو Lactobacillus نامی بیکٹیریا پایا جاتا ہے، جو ایک قسم کی بجلی یا روشنی بھی پیدا کر سکتا ہے تو کیا یہی وہ بجلی یا روشنی ہے جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انسانی پیدائش کے سلسلہ میں اسلامی اصول کی فلاسفی میں فرمایا ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 14؍دسمبر 2021ء میں اس سوال کے بارے میں درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: آپ کی بات اس حدتک تو ٹھیک ہے کہ Lactobacillus نامی بیکٹیریا نطفہ میں موجود ہوتے ہیں، جو Contaminant کےطور پر نطفہ میں پائے جاتے ہیں،ان میں سے بعض میں بہت چھوٹے پیمانہ پر بجلی پیدا کرنیکی صلاحیت بھی ہوتی ہے۔لیکن یہ بیکٹیریا تو بہت سی اور چیزوں مثلاً دہی، وٹامنز، Herbs وغیرہ میں بھی پائے جاتے ہیں۔اسی طرح جسم میں بہت سے اور بیکٹیریا بھی ہیں جن میں کسی حد تک بجلی پیدا کرنیکی صلاحیت موجود ہوتی ہے جیسا کہProbiotic microorganisms نامی پیٹ کے بیکٹیریا جو کھانا ہضم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ پھر یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ یہ بجلی بھی الیکٹرون کی Movement سے پیدا ہوتی ہے جو کہ ایک مادی چیز ہے۔
جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انسانی پیدائش میں روح کے نمودار ہونےکا جہاں ذکر فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ انسانی تعلق کا مقصد اور فلسفہ بیان فرمایا ہے وہاں دراصل اس فطرت کو بیان فرمایا ہے جو انسانی جبلت میں مضمر ہوتی ہے اور جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نےفِطْرَتَ اللہِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْہَا(الروم:31) یعنی یہ اللہ کی فطرت ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا، کے الفاظ میں اور آنحضورﷺ نے مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ اِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاهُ يُـهَوِّدَانِهٖ اَوْ يُنَصِّرَانِهٖ اَوْ يُمَجِّسَانِهٖ۔ (صحیح بخاری کتاب الجنائزباب إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ هَلْ يُصَلَّى عَلَيْهِ)یعنی ہر بچہ فطرت صحیحہ پر ہی پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں، کے الفاظ میں ہماری راہنمائی فرمائی ہے۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:جس طرح بیٹےمیں باپ اور ماں کا کچھ کچھ حلیہ اور خوبُو پائی جاتی ہے اسی طرح روحیں جو خدائے تعالیٰ کے ہاتھ سے نکلی ہیں اپنے صانع کی سیرت و خصلت سے اجمالی طور پر کچھ حصہ رکھتی ہیں اگرچہ مخلوقیت کی ظلمت و غفلت غالب ہو جانے کی وجہ سے بعض نفوس میں وہ رنگ الٰہی کچھ پھیکا سا ہو جاتا ہے لیکن اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ ہر یک روح کسی قدر وہ رنگ اپنے اندر رکھتی ہے اور پھر بعض نفوس میں وہ رنگ بداستعمالی کی وجہ سے بد نما معلوم ہوتا ہے مگر یہ اس رنگ کا قصور نہیں بلکہ طریقہ استعمال کا قصور ہے۔
(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد2صفحہ 169،168)
روح کی حقیقت بیان کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:روح ایک لطیف نور ہے جو اس جسم کے اندر ہی سے پیدا ہو جاتا ہے جو رحم میں پرورش پاتا ہے۔ پیدا ہونے سے مراد یہ ہے کہ اوّل مخفی اور غیر محسوس ہوتا ہے پھر نمایاں ہو جاتاہے اور ابتداءً اس کا خمیر نطفہ میں موجود ہوتا ہے۔ بےشک وہ آسمانی خدا کے ارادہ سے اور اس کے اذن اور اس کی مشیت سے ایک مجہول الکنہ علاقہ کے ساتھ نطفہ سے تعلق رکھتا ہے اور نطفہ کا وہ ایک روشن اور نوارنی جو ہر ہے۔ نہیں کہہ سکتے کہ وہ نطفہ کی ایسی جز ہے جیسا کہ جسم جسم کی جز ہوتا ہے مگر یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ باہر سے آتا ہے یا زمین پر گر کر نطفہ کے مادہ سے آمیزش پاتا ہے بلکہ وہ ایسا نطفہ میں مخفی ہوتا ہے جیسا کہ آگ پتھر کے اندر ہوتی ہے۔ خدا کی کتاب کا یہ منشا نہیں ہے کہ روح الگ طور پر آسمان سے نازل ہوتی ہے یا فضا سے زمین پر گرتی ہے اور پھر کسی اتفاق سے نطفہ کے ساتھ مل کر رحم کے اندر چلی جاتی ہے۔بلکہ یہ خیال کسی طرح صحیح نہیں ٹھہر سکتا۔ اگر ہم ایسا خیال کریں تو قانون قدرت ہمیں باطل پر ٹھہراتا ہے۔(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 323،322)روح اور جسم کا تعلق بیان کرتے ہوئے حضورعلیہ السلام فرماتے ہیں:روح اور جسم کا ایک ایسا تعلق ہے کہ اس راز کو کھولنا انسان کا کام نہیں۔ اس سے زیادہ اس تعلق کے ثبوت پر یہ دلیل ہے کہ غور سے معلوم ہوتا ہے کہ روح کی ماں جسم ہی ہے۔ حاملہ عورتوں کے پیٹ میں روح کبھی اوپر سے نہیں گرتی بلکہ وہ ایک نور ہے جو نطفہ میں ہی پوشیدہ طور پر مخفی ہوتا ہے اور جسم کی نشوونما کے ساتھ چمکتا جاتا ہے۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ 321)حضور علیہ السلام مزید فرماتے ہیں:خدا نے آدم میں اس کی پیدائش کے ساتھ ہی اپنی روح پھونک کر اس کی فطرت کو اپنے ساتھ ایک تعلق قائم کر دیا۔ سو یہ اس لئے کیا گیا کہ تا انسان کو فطرتاً خدا سے ایک تعلق پیدا ہو جاوے۔ (ریویو آف ریلیجنز جلد1نمبر5، مئی 1902ءصفحہ 178)
انسان میں روحانی اور جسمانی طورپر روح کے ڈالے جانے کی بابت حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ۝۰ۭ فَتَبٰرَكَ اللہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ۔اس کا ترجمہ یہ ہےکہ جب ہم ایک پیدائش کو طیار کر چکے تو بعد اس کے ہم نے ایک اور پیدائش سے انسان کو پیدا کیا۔ اَور کے لفظ سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ وہ ایسی فوق الفہم پیدائش ہے جس کا سمجھنا انسان کی عقل سے بالا تر ہے اور اُس کے فہم سے بہت دور یعنی روح جو قالب کی طیاری کے بعد جسم میں ڈالی جاتی ہے وہ ہم نے انسان میں روحانی اور جسمانی دونوں طور پر ڈال دی جو مجہول الکنہ ہے اور جس کی نسبت تمام فلسفی اور اس مادی دنیا کے تمام مقلد حیران ہیں کہ وہ کیا چیز ہے…پس اللہ تعالیٰ اس جگہ فرماتا ہے کہ’’روح ‘‘بھی خدا کی پیدائش ہے مگر دنیا کے فہم سے بالا تر ہے۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ217،216)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ روح کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اصل میں روح وہ چیز ہے جس کے ذریعہ کسی کو حیات ممتاز ملے۔ پس وہ روح جو حیوان کو باقی چیزوں سے ممتاز کر رہی ہے۔ اور وہ روح جس کے ساتھ انسان باقی حیوانوں سے ممتاز ہوتا ہے ان دونوں پر لفظ روح کا اطلاق ہوتا ہے۔ یا وہ روح جو انسان کو باخدا بنادیتی ہے۔ پس کلام الٰہی بھی ایک روح ہے جو انسان کو نئی زندگی بخشتا ہے۔
(تفسیر کبیر جلدچہارم صفحہ 72)
پس ان حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی جسمانی اور روحانی پیدائش کے وقت انسانی قالب کی تیاری پر خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہونے والی روح بالکل الگ چیز ہے اور مختلف بیکٹیریا میں پائی جانے والی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت بالکل اورچیز ہے۔
سوال: عیدالاضحیہ کی قربانی کتنے دنوں تک ہو سکتی ہے؟ اس سوال کے بارے میں دارالافتاء سے جاری ہونے والے ایک فتویٰ کے بارے میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 21؍مارچ 2022ء میں درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: عیدالاضحیہ کی قربانی کتنے دنوں تک ہو سکتی ہے، اس بارے میں تو آپ کا فتویٰ ٹھیک ہے اور میرا بھی یہی موقف ہے کہ عام حالات میں قربانی تین دن تک ہی ہو سکتی ہے لیکن اگر کوئی مجبوری ہو تو اس کے بعد بھی قربانی کی جاسکتی ہے۔
باقی مجھے تو آپ کے اُس استدلال پر اعتراض تھا جو آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے کیا تھا۔میرے نزدیک تو اس ارشاد میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ بھی یہی بیان فرما رہے ہیں کہ قربانی تین دنوں تک ہی ہو سکتی ہے اور حضور کا یہ ارشاد عمومی حالات کے لیےہے۔
(نوٹ از مرتب)حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مذکورہ بالا مکتوب میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے جس ارشاد کا ذکر فرمایا ہے، وہ درج ذیل ہے:
’’آنحضرت ﷺ کا طریق یہ تھا کہ عید کا خطبہ زیادہ لمبا نہیں کیا کرتے تھے اور اس کے بعد جلد قربانی کے لئے گھر روانہ ہو جایا کرتے تھے۔ اس میں ایک حکمت یہ بھی تھی کہ آپؐاس وقت تک روزہ رکھتے تھے جب تک خود اپنی قربانی کے گوشت سے وہ روزہ نہ کھولیں اور اس سنت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض لوگوں نے یہ دستور بنا لیا ہے کہ عید کے دن ضرور روزہ رکھتے ہیں اور جب تک فارغ نہ ہوں وہ کچھ نہیں کھاتے لیکن مراد ہر گز یہ نہیں ہے کہ کچھ پہلے کھانا حرام ہو جاتا ہے مگر سنت کا مضمون یہ ہے کہ جس نے قربانی کرنی ہو، جس دن قربانی کرنی ہو، اس دن وہ قربانی کے گوشت کے حاصل ہونے سے پہلے روزہ رکھے۔ قربانی تو تین دن چلتی ہے۔ تو اگر یہ غلط مضمون سمجھا گیا تو اس کا مطلب یہ بنے گا کہ بعض لوگ جنہوں نے چوتھے دن قربانی کرنی ہے وہ چار دن بھوکے رہیں۔‘‘
(خطبات طاہر (عیدین) صفحہ 655، خطبہ عید الاضحیہ 28 مارچ 1999ء)
…٭…٭…٭…