دوسری شرطِ بیعت میں مذکور نو9برائیوں کو چھوڑنے سے انسان روحانی اور اخلاقی طور پر ترقی کر سکتا ہے
تم اس کی جناب میں قبول نہیں ہوسکتے جب تک ظاہر و باطن ایک نہ ہو
اگر اعتراض کرنے والوں اور عقل کے اندھوں کی آنکھیں بند نہ ہوں تو ہر ملک میں جلسہ ہائے سالانہ کا انعقاد
اور ان میں شاملین کی تعداد انہیں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی دکھانے کیلئے کافی ہے
ہمیں اس فضل سے فیض اٹھانے اور اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے اپنی ذمہ داریاں بھی ادا کرنی ہوں گی اور اپنے عہد اور اپنے وعدے کو
جو ہم نے جماعت میں شامل ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کیا ہے پورا کرنا ہو گا۔ اس کیلئے ہمیں اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی
’’یقیناً یاد رکھو جھوٹ جیسی کوئی منحوس چیز نہیں‘‘
’’اصل بات یہ ہے کہ سچ بولنے سے جو سزا پاتے ہیں وہ سچ کی وجہ سے نہیں ہوتی، وہ سزا ان کی بعض اَور مخفی در مخفی بدکاریوں کی ہوتی ہے، اور کسی اَور جھوٹ کی ہوتی ہے‘‘
ہر احمدی کو اپنی سچائی کے معیار بہت اونچے کرنے کی ضرورت ہے، اگر یہ سچائی کے معیار ہم حاصل کر لیں تو بہت سے جھگڑے اور مسائل ہمارے ختم ہو جائیں
جس برائی سے آپؑنے خاص طور پر بچنے کی تلقین فرمائی وہ بدنظری ہے
اسلام نے نظروں کو نیچا رکھنے کا حکم مرد اور عورت دونوں کو دیا ہے اور یہ دے کر حیا کے اس معیار کو قائم فرمایا ہے جس سے کسی برائی کا امکان ہی نہ رہے
اگر اللہ تعالیٰ کی رضا ہم نے حاصل کرنی ہے تو پھر باریکی میں جا کر ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہو گی اور اپنے بچوں کو بھی سمجھانا ہو گا
’’صالح اور متقی اولاد کی خواہش سے پہلے ضروری ہے کہ وہ خود اپنی اصلاح کرے اور اپنی زندگی کو متقیانہ زندگی بنا وے
تب اس کی ایسی خواہش ایک نتیجہ خیز خواہش ہو گی اور ایسی اولاد حقیقت میں اس قابل ہو گی کہ اس کو باقیات صالحات کا مصداق کہیں‘‘
’’مظلوم کی بددعا سے بچو کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی روک نہیں‘‘
ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے، کیا ہم بیعت کی امانت کا بھی حق ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اس میں کسی طرح سے خیانت تو نہیں ہو رہی؟
ایک عزم کے ساتھ عہد کریں کہ ہم نے لجنہ کی اگلی صدی میں اس عہد کے ساتھ قدم رکھنا ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو عہدِ بیعت کا حق ادا کرنے والا بنائیں گی
قرآنِ کریم، احادیث نبویہؐ ا ور ارشادات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روشنی میں سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کی
دوسری شرطِ بیعت میں مذکور نو9برائیوں جھوٹ، زنا، فحشاء، فسق و فجور، ظلم، خیانت، فساد، بغاوت اور نفسانی جوش کے غلبہ سے دامن بچائے رکھنے کی عارفانہ نصیحت
لجنہ اماء اللہ کے قیام پر سو سال مکمل ہونے پر آئندہ نسل کو عہدِ بیعت پر کاربند کرنے کا عہد کرنے کی تلقین
خطاب جلسہ سالانہ قادیان 2022ء
اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ-
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مٰلكِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ
اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ۥۙ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَاالضَّاۗلِّیْنَ
آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے قادیان کے جلسہ سالانہ کا آخری دن ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تین دن اللہ تعالیٰ کی برکات سمیٹتے ہوئے گزر گئے۔ اسی طرح جیساکہ میں نے جمعہ میں ذکر کیا تھا بہت سے افریقن ممالک میں بھی ان دنوں میں جلسہ سالانہ ہو رہا ہے جن میں نائیجیریا، آئیوری کوسٹ، گنی بساؤ، گنی کناکری، ٹوگو، برکینا فاسو، مالی اور زمبابوے شامل ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایم ٹی اے کے ذریعہ ہمیں ایک دوسرے کو دیکھنے اور سننے کی بھی توفیق دی ہے۔ بعض شامل کیے گئے ہیں بعضوں کے ٹیکنیکل مسائل تھے شاید اس لیے نہیں شامل ہو سکے لیکن بہرحال پانچ چھ ملک تو شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایم ٹی اے کے ذریعہ ہمیں ایک دوسرے کو دیکھنے اور سننے کی توفیق عطا فرمائی۔ ایک ہی وقت میں تمام ملک میری باتیں بھی سن رہے ہیں، دیکھ بھی رہے ہیں اور ہم ان کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اپنے وعدے کو پورا کرنے کا اظہارہے۔ بہرحال جب ہم جلسہ سالانہ کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو اس جلسہ کو دیکھتے ہیں جو آج سے 130سال پہلے ہوا۔ یعنی باقاعدہ جلسہ جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اعلان فرمایا تھا گو اس سے پہلے 1891ء میں بھی ایک جلسہ ہوا تھا لیکن وہ ایک دن کا تھا اور زیادہ تر انتظامی پہلو زیرنظر رہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تازہ تصنیف ’’آسمانی فیصلہ‘‘ جو اُس وقت لکھی تھی مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے پڑھ کر سنائی تھی۔ بہرحال جماعتی تاریخ میں 1891ء کو ہی جماعت کی تاریخ میں پہلا جلسہ شمار کیا جاتا ہے لیکن باقاعدہ اشتہار دے کر جلسہ سالانہ کی تاریخیں مقرر کر کے جس جلسہ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اعلان فرمایا وہ میرے نزدیک تو 1892ء کا جلسہ ہےاور اس جلسہ کا مقصد دینی، روحانی اور اخلاقی ترقی بیان فرمایا اور اس پر بہت شدت سے زور دیا۔ یہی مقصد ہے جسکے حصول کیلئے آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے ہر ملک میں جہاں جماعت احمدیہ باقاعدہ قائم ہے جلسہ سالانہ منعقد ہوتا ہے۔ 1891ء کے مختصر جلسہ میں 75؍ افراد تھے جو چند گھنٹوں میں ختم ہو گیا تھا اور 1892ء کے باقاعدہ جلسہ میں 327؍افراد شامل ہوئے۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش اس قدر ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ملک میں ہمیں ہزاروں کی تعداد میں شاملین دکھا رہا ہے۔ کیا یہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات کا اور اسکے وعدوں کا جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کیے، ثبوت نہیں ہے؟ یقینا ًہے!
اگر اعتراض کرنے والوں اور عقل کے اندھوں کی آنکھیں بند نہ ہوں تو یہی ایک بات انہیں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی دکھانے کیلئے کافی ہے۔
بہرحال ان کو نظر آئے یا نہ آئے یہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات ہیں، اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدوں کا پورا ہونا ہے جس کے نظارے ہم آج دیکھ رہے ہیں۔ یہ صرف منہ کی بات نہیں۔ سب دنیا دیکھ رہی ہے کہ کیمرے کی آنکھ اور ٹی وی کی سکرین ہمیں یہ نظارے دکھا رہی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے اس فضل و احسان پر ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں۔ ہم جلسہ میں شامل ہونے کیلئے جمع تو ہو گئے۔ دنیا میں مختلف جگہوں پر بیٹھے ہوئے سن بھی رہے ہیں، اسکے نظارے بھی دیکھ رہے ہیں لیکن ہمیں اس فضل سے فیض اٹھانے اور اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے اپنی ذمہ داریاں بھی ادا کرنی ہوں گی اور اپنے عہد اور اپنے وعدے کو جو ہم نے جماعت میں شامل ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کیا ہے پورا کرنا ہو گا۔ اس کیلئے ہمیں اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی۔
جلسہ سالانہ کے دنوں میں اس حوالے سے سب نے بہت سی تقاریر بھی سنی ہوں گی۔ تربیتی اور تعلیمی، علمی اور روحانی تقریریں۔ اللہ تعالیٰ یہ باتیں سنانے والوں، تقریریں کرنے والوں اور سننے والوں دونوں کو ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائے تا کہ ہم اُس مقصد کو حاصل کر سکیں جو جلسہ کا مقصد ہے۔ بہرحال میں اس حوالے سے کچھ ذمہ داریوں کی طرف آج توجہ دلاؤں گا جن کا ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آکر اُن پر عمل کرنے کا آپؑسے وعدہ کیا ہے۔ ہم نے بیعت میں آکر اس عہد میں اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول ﷺ کے حکموں اور اسوہ کے مطابق کرنے کے وعدے تو بہت کیے ہیں لیکن وقت کی رعایت سے میں اس وقت دوسری شرط بیعت کے حوالے سے کچھ باتیںکروں گا۔
اگر اسکے مطابق ہم اپنی زندگیوں کو ڈھال لیں تو اپنے اندر بھی اور دنیا میں بھی ایک انقلابِ عظیم پیدا کر سکتے ہیں۔
ہم نے جو عہد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کیا ہے اسکی دوسری شرط یہ ہے کہ ’’جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر یک فسق اور فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا۔‘‘ یعنی بیعت کرنے والا ان سے بچے گا۔ ’’اور نفسانی جوشوں کے وقت اُن کا مغلوب نہیں ہو گا اگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے۔‘‘
(ازالہ اوہام، حصہ دوم، روحانی خزائن، جلد 3، صفحہ 563-564)
اس میں آپؑنے نو9 برائیوں کا ذکر کر دیا، اس طرف توجہ دلائی ہے اور یہ برائیاں ایسی ہیں جن کو چھوڑنے سے انسان روحانی اور اخلاقی طور پر ترقی کر سکتا ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس پر عمل کرنے کے بارے میں اور اسکی اہمیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ، اسکا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کیا فرماتے ہیں۔اللہ تعالیٰ جھوٹ کے بارے میں فرماتا ہے کہ فَاجْتَنِبُوْا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ (الحج:31) پس بتوں کی پلیدی سے احتراز کرو اور جھوٹ کہنے سے بچو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’قرآن شریف نے تمہارے لئے بہت پاک احکام لکھے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ تم شرک سے بکلی پرہیز کرو کہ مشرک سرچشمۂ نجات سے بے نصیب ہے۔ تم جھوٹ نہ بولو کہ جھوٹ بھی ایک حصہ شرک ہے۔‘‘(کشتی نوح، روحانی خزائن ،جلد 19، صفحہ 28)
پھر مزید وضاحت کرتے ہوئے آپؑفرماتے ہیں : ’’قرآن شریف نے دروغ گوئی کو بُت پرستی کے برابر ٹھہرایا ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاجْتَنِبُوْا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ (الحج: 31) یعنی بتوں کی پلیدی اور جھوٹ کی پلیدی سے پرہیز کرو۔ اور پھر ایک جگہ فرماتا ہے یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ وَ لَوْ عَلٰٓى اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ(النساء: 136) الجزو نمبر4۔ یعنی اے ایمان والو انصاف اور راستی پر قائم ہو جاؤ اور سچی گواہیوں کو للہ ادا کرو اگرچہ تمہاری جانوں پر ان کا ضرر پہنچے یا تمہارے ماں باپ اور تمہارے اقارب ان گواہیوں سے نقصان اٹھاویں۔‘‘(نورالقرآن نمبر2،روحانی خزائن جلد 9صفحہ 403)
پس یہ ہے سچائی کا معیار جس پر ایک احمدی کو قائم ہونے کیلئے بھرپور کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے خلاف اپنے پیاروں کے خلاف بھی گواہی دینے سے گریز نہ کرے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِیْ مَنْ هُوَ كٰذِبٌ كَفَّارٌ (الزّمر:4)اللہ ہرگز اسے ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا اور سخت ناشکرا ہے۔ پس یہ واضح تنبیہ بھی ہمیں جھنجھوڑنے کیلئے کافی ہے۔
بڑی باریکی سے ہمیں اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے۔ جھوٹ کتنا گھناؤنا فعل ہے جو شرک کے برابر ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کس درد کے ساتھ اور کس سختی کے ساتھ جھوٹ بولنے سے منع فرمایا ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ ؓاپنے والدسے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں بڑے بڑے گناہوں میں سے سب سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کا شریک ٹھہرانا اور والدین سے قطع تعلقی کرنا اور آپﷺ ٹیک لگائے ہوئے تھے پھر بیٹھ گئے اور فرمایا سنو! جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ سنو! جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل یہ کہتے رہے حتیٰ کہ میں نے دل میں کہا آپ ﷺ خاموش نہیں ہوں گے۔ (صحیح بخاری كِتَابُ الأَدَبِ بَابٌ عُقُوقُ الوَالِدَیْنِ مِنَ الكَبَائِرِ،دیث نمبر5976) یعنی کہ بہت زیادہ تکلیف میں ہیں۔
پس کس قدر فکر آپؐکی اس بات میں نظر آتی ہے۔ اگر ہم اپنے جائزے لیں تو بہت سوں میں خود یہ بات نظر آئے گی کہ بہت سے مواقع پر وہ غلط بیانی سے کام لے جاتے ہیں۔ پس غور کا مقام ہے۔
کیا ہم اپنا عہد پورا کرنے والے بن رہے ہیں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تو معیار یہ ہے کہ مذاق میں بھی غلط بات کہنا جھوٹ ہے۔ پس یہ ہیں وہ معیار جو ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔یقیناً سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی یقیناً جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ ایک شخص سچ بولتا ہے یہاں تک کہ وہ صدیق لکھا جاتا ہے۔ یقیناً جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ آگ کی طرف لے جاتا ہے۔ ایک شخص جھوٹ بولتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ کذّاب لکھا جاتا ہے۔(صحیح مسلم كِتَابُ الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ قُبْحِ الْكَذِبِ وَحُسْنِ الصِّدْقِ وَفَضْلِهِحدیث نمبر6637)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ منافق کی تین علامتیں ہیں۔ جب بات کرتا ہے جھوٹ بولتا ہے۔ منافق کی علامتوں میں سے پہلی علامت یہ ہے کہ جب بات کرتا ہے جھوٹ بولتا ہے۔ جب وعدہ کرتا ہے وعدہ خلافی کرتا ہے۔ وہاں بھی جھوٹ ہی آ گیا۔ جب اسکے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو خیانت کرتا ہے۔(صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ بَیَانِ خِصَالِ الْمُنَافِقِ حدیث نمبر 211)یہاں بھی جھوٹ ہی ہے گو تین مختلف حالتیں ہیں۔
بڑے غور اور بڑے خوف کا مقام ہے۔ زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں یہ بڑی واضح باتیں ہیں۔ ہمیں خود اسے سامنے رکھ کر اپنا جائزہ لینا چاہئے۔
پھر جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں’’یقیناً یاد رکھو جھوٹ جیسی کوئی منحوس چیز نہیں۔
عام طور پر دنیا دار کہتے ہیں کہ سچ بولنے والے گرفتار ہو جاتے ہیں مگر میں کیونکر اس کو باور کروں؟ مجھ پر سات مقدمے ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی ایک میں بھی مجھے جھوٹ کہنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ کوئی بتائے کہ کسی ایک میں بھی خدا تعالیٰ نے مجھے شکست دی ہو۔ اللہ تعالیٰ تو آپ سچائی کا حامی اور مددگار ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ راستباز کو سزا دے؟‘‘ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ راستباز کو سزا دے؟ ’’اگر ایسا ہو تو دُنیا میں پھر کوئی شخص سچ بولنے کی جرأت نہ کرے اور خدا تعالیٰ پر سے ہی اعتقاد اٹھ جاوے۔ راستباز تو زندہ ہی مر جاویں۔‘‘
فرماتے ہیں کہ’’اصل بات یہ ہے کہ سچ بولنے سے جو سزا پاتے ہیں وہ سچ کی وجہ سے نہیں ہوتی۔ وہ سزا ان کی بعض اَور مخفی در مخفی بدکاریوں کی ہوتی ہے اور کسی اَور جھوٹ کی ہوتی ہے۔‘‘
وہ سزا کسی اَور وجہ سے مل رہی ہوتی ہے کسی اَور ظلم میں پکڑے جاتے ہیں۔ پس اس نکتے کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ اگر اس بات کو انسان ذہن میں رکھے تو پھر بہت سے گناہوں اور غلطیوں سے پاک ہو جائے اور یہی وہ مقام ہے جہاں انسان اپنے عہد کو پورا کرنے والا بنتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’خدا تعالیٰ کے پاس تو ان کی بدیوں اور شرارتوں کا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔ ان کی بہت سی خطائیں ہوتی ہیں اور کسی نہ کسی میں وہ سزا پالیتے ہیں۔‘‘(ملفوظات، جلد8،صفحہ351تا353 ، ایڈیشن1984ء)
اللہ تعالیٰ کے علم میں تو ہمارے عمل کی فہرست ہے۔ پس ہمیشہ خداتعالیٰ کے حضور استغفار کرتے رہنا چاہئے۔
آج کل کے معاشرے میں تو قدم قدم پر ہمیں جھوٹ نظر آتا ہے اور اسے دیکھ کر ہم سمجھتے ہیں کہ تھوڑی بہت غلط بیانی کر لینا کوئی گناہ نہیں ہے، کوئی ایسی بڑی بات نہیں ہے لیکن یہی باتیں پھر بڑے بڑے جھوٹ بلواتی ہیں۔ سچائی کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔ پس ہر احمدی کو اپنی سچائی کے معیار بہت اونچے کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ سچائی کے معیار ہم حاصل کر لیں تو بہت سے جھگڑے اور مسائل ہمارے ختم ہو جائیں۔
سب سے اہم بات ہمیں یہ یاد رکھنی چاہئے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت خدا کی بادشاہت دنیا میں قائم کرنے کیلئے کی ہے۔ اگر ہم نے جھوٹ کا سہارا لینا شروع کر دیا تو ہم پھر خدا کی بادشاہت قائم کرنے کی بجائے شیطان کی بادشاہت دنیا میں قائم کرنے والے بن رہے ہوں گے۔ پس بہت فکر اور سوچنے کا مقام ہے۔
پھر اسی شرط میں جس پہلو کی طرف آپ نے توجہ دلائی وہ ہےزنا سے بچنا۔
آج کل کے زمانے میں تو میڈیا نے اسکے پھیلانے کی تمام حدیں توڑ دی ہیں اور ان حالات میں تو ہمیں اپنے آپ کو بھی اور اپنی نسلوں کو بچانے کیلئے خاص کوشش کرنی ہو گی۔ گندی فلمیں دیکھنا گندے خیالات دل میں پیدا کرنا یہ بھی زنا کی قسمیں ہیں اور یہ میڈیا آج کل کرتا ہے جو یہ چیزیں انسان کو برائیوں اور فحشاء میں دھکیلتی چلی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ لَا تَقْرَبُوْا الزِّنٰٓى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَ سَآءَ سَبِیْلًا (بنی اسرائیل :33) اور زنا کے قریب نہ جاؤ۔ یقینا ًیہ بے حیائی ہے اور بہت برا راستہ ہے۔
پس بہت فکر کا مقام ہے۔ اب توجیساکہ میں نے کہا میڈیا کیا کر رہا ہے بچوں کے بھی ایسے پروگرام دکھائے جاتے ہیں جن میں فحش باتوں سے ان کے دماغ زہر آلود کیے جا رہے ہیں۔ پس ایسے حالات میں تو ہمیں بہت فکر کے ساتھ ایک جہاد کرنا ہو گا۔
پھر زنا صرف ظاہری زنا نہیں بلکہ ہر قسم کا زنا ہے۔
باتیں جو برائیوں میں ملوث کرتی ہیں، بے حیائیوں کی طرف لے جاتی ہیں، فحشاء کی طرف لے جاتی ہیں وہ سب اس میں شامل ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ تنبیہ کرتے ہوئے فرماتا ہے اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (النور: 20) یقینا ًوہ لوگ جو پسند کرتے ہیں کہ ان لوگوں میں جو ایمان لائے بے حیائی پھیل جائے ان کیلئے دردناک عذاب ہو گا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور اللہ جانتا ہے جبکہ تم نہیں جانتے۔
اگر دیکھا جائے تو جو لوگ ان غلاظتوں میں پڑتے ہیں وہ تو خود بھی مختلف قسم کی بیماریوں کے عذاب میں مبتلا ہوتے ہیں اور آخرت کے عذاب کے بارے میں اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کیا سلوک ہو گا۔ اسکی کیا شدت ہو گی۔ کاش کہ ایسے لوگ عقل کریں۔پس ہم نے جہاں معاشرے کی اس برائی سے جو بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے اپنے آپ کو بچانا ہے اپنی نسلوں کو بچانا ہے وہاں ماحول کو صاف رکھنے کیلئے دوسروں کو بھی سمجھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ان فحشاء کی ترویج بھی اصل میں دہریت پھیلانے کا ایک پہلو ہے بلکہ دہریت پھیلانے والوں کا ایجنڈا ہے۔ اس کا حصہ ہے جو انسان کو خدا تعالیٰ سے اور مذہب سے دور لے جانا چاہتے ہیں ۔ پس ہمیں بہت کوشش سے اس جہاد میں بھی حصہ لینا ہو گا۔
ایک حدیث میں آتا ہے حضرت انسؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اس گھڑی کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا اور جہالت مستحکم ہو جائے گی اور شراب پی جائے گی اور زنا کثرت سے ہوگا۔(صحیح بخاری كِتَابُ العِلْمِ بَابُ رَفْعِ العِلْمِ وَظُهُورِ الجَهْلِ حدیث نمبر 80)
پس یہ جو اس زمانے کی باتوں کے بارے میں پیشگوئی ہے۔ یہی کچھ آج کل نظر میں آ رہا ہے لیکن خوف خدا پھر بھی نہیں ہے۔ پس احمدیوں نے جہاں اپنے آپ کو ان بیہودگیوں سے بچانا ہے وہاں جیساکہ میں نے کہا دوسروں کو بھی بچانے کی کوشش کرنی ہے۔
اللہ تعالیٰ دنیا کو عقل دے اور ہمارا پیغام وہ سمجھ سکیں اور سن سکیں اور ہمیں توفیق دے کہ ہم یہ پیغام پہنچانے والے بھی ہوں اور خود بھی اس سے ہر طرح سے بچنے والے ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیںفحشاء سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں:(آپ نے ایک پہلو کو دیکھا ہے جو آج کل عام ہے )’’جو شخص آزادی سے نامحرم عورتوں کو دیکھتا رہے گا آخر ایک دن بدنیتی سے بھی دیکھے گا کیونکہ نفس کے جذبات ہر یک طبیعت کے ساتھ لگے ہوئے ہیں اور تجربہ بلند آواز سے بلکہ چیخیں مار کر ہمیں بتلا رہا ہے کہ بیگانہ عورتوں کو دیکھنے میں ہرگز انجام بخیر نہیں ہوتا۔ یورپ جو زنا کاری سے بھر گیا۔ اسکا کیا سبب ہے۔ یہی تو ہے کہ نامحرم عورتوں کو بے تکلف دیکھنا عادت ہو گیا۔ اول تو نظر کی بدکاریاں ہوئیں اور پھر معانقہ بھی ایک معمولی امر ہو گیا۔‘‘(نورالقرآن نمبر2، روحانی خزائن ،جلد9، صفحہ 416-417)اور پھر بڑھتے بڑھتے بہت آگے نکل جاتے ہیں۔ اور یہی آج کے اس معاشرے میں ہمیں نظر آتا ہے اور ہمیں یہاں رہتے ہوئے تو خاص طور پر بہت فکر سے کوشش کرنی چاہئے اور اب صرف یہیں کی بات نہیں رہی بلکہ میڈیا نے اور آزادی نے دنیا کے ہر ملک میں اس بے حیائی کو عام کر دیا ہے۔
پھرجس برائی سے آپؑنے خاص طور پر بچنے کی تلقین فرمائی وہ بدنظری ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے : قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ۔ وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُیُوْبِهِنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآئِهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآئِهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَآئِهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْهَرُوْا عَلٰى عَوْرٰتِ النِّسَآءِ وَ لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِهِنَّ وَتُوْبُوْٓا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(النور:31-32) مومنوں کو کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں۔ یہ بات ان کیلئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔ یقیناً اللہ جو وہ کرتے ہیں اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔ اور مومن عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کیا کریں سوائے اسکے کہ جو اس میں سے از خود ظاہر ہو۔ اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈال لیا کریں۔ اور اپنی زینتیں ظاہر نہ کیا کریں مگر اپنے خاوندوں کیلئے یا اپنے باپوں یا اپنے خاوندوں کے باپوں یا اپنے بیٹوں کیلئے یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں کیلئے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں یا اپنی بہنوں کے بیٹوں یا اپنی عورتوں یا اپنے زیرنگیں مردوں کیلئے یا مردوں میں ایسے خادموں کیلئے جو کوئی جنسی حاجت نہیں رکھتے یا ایسے بچوں کیلئے جو عورتوں کی پردہ دار جگہوں سے بے خبر ہیں اور وہ اپنے پاؤں اس طرح نہ ماریں کہ لوگوں پر وہ ظاہر کردیا جائے جو عورتیں عموماً اپنی زینت میں سے چھپاتی ہیں۔ اور اے مومنو! تم سب کے سب اللہ کی طرف توبہ کرتے ہوئے جھکو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
اس آیت کی وضاحت فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’قرآن شریف میں یہ آیت ہے قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ (النور:31) یعنی مومنوں کو کہہ دے کہ نامحرم اور محلِ شہوت کے دیکھنے سے اپنی آنکھیں اس قدر بند رکھیں کہ پوری صفائی سے چہرہ نظر نہ آسکے اور نہ چہرہ پرکشادہ اور بے روک نظر پڑسکے۔ اور اِس بات کے پابند رہیں کہ ہرگز آنکھ کو پورے طور پر کھول کر نہ دیکھیں نہ شہوت کی نظر سے اور نہ بغیر شہوت سے کیونکہ ایساکرنا آخر ٹھوکر کاباعث ہے یعنی بے قیدی کی نظر سے نہایت پاک حالت محفوظ نہیں رہ سکتی اور آخر ابتلا پیش آتا ہےاور دِل پاک نہیں ہوسکتا جب تک آنکھ پاک نہ ہواور وہ مقام اَزْكٰى جس پر طالبِ حق کیلئے قدم مارنا مناسب ہے حاصل نہیں ہوسکتا اور اِس آیت میں یہ بھی تعلیم ہے کہ بدن کے ان تمام سوراخوں کومحفوظ رکھیں جن کی راہ سے بدی داخل ہوسکتی ہے۔ سوراخ کے الفاظ میں جو آیتِ ممدوح میں مذکور ہے آلاتِ شہوت اور کان اور ناک اور منہ سب داخل ہیں۔ اب دیکھو کہ یہ تمام تعلیم کس شان اور پایہ کی ہے جو کسی پہلو پر نامعقول طور پر افراط یا تفریط سے زور نہیں ڈالا گیا اور حکیمانہ اعتدال سے کام لیا گیا ہے۔ اور اس آیت کا پڑھنے والا فی الفور معلوم کرلے گا کہ اِس حکم سے جو کھلے کھلے نظر ڈالنے کی عادت نہ ڈالو یہ مطلب ہے کہ تا لوگ کسی وقت فتنہ میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ اور دونوں طرف مرد اورعورت میں سے کوئی فریق ٹھوکر نہ کھاوے لیکن انجیل میں جو بے قیدی اور کھلی آزادی دی گئی اور صرف انسان کی مخفی نیت پر مدار رکھا گیا ہے اِس تعلیم کا نقص اور خامی ایسا امر نہیں ہے کہ اسکی تصریح کی کچھ ضرورت ہو۔‘‘(تریاق القلوب،روحانی خزائن، جلد 15،صفحہ 164)
پس اسلام نے نظروں کو نیچا رکھنے کا حکم مرد اور عورت دونوں کو دیا ہے اور یہ دے کر حیا کے اس معیار کو قائم فرمایا ہے جس سے کسی برائی کا امکان ہی نہ رہے۔
اگر ایسے معیار ہم قائم کرنے کی کوشش کریں تو پھر ہی ایک پاکیزہ معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔ اس حکم کی وسعت صرف یہی ظاہری طور پر دیکھنے میں نہیں ہے بلکہ آج کل جو میڈیا ہے، کمپیوٹر ہے، ٹی وی ہے اس پر غلط اور ننگے پروگرام جو آتے ہیں جس طرح پہلے بھی میں ذکر کر چکا ہوں ان تک اسکی یہ وسعت پھیلی ہوئی ہے۔ وہاں بھی ہمیں احتیاط کرنی چاہئے اور خاص طور پر نوجوانوں کو اس طرف دیکھنا چاہئے اوربلکہ بعض تو بڑوں کی بھی شکایات آتی ہیں۔
اگر اللہ تعالیٰ کی رضا ہم نے حاصل کرنی ہے تو پھر اس قدر باریکی میں جا کر ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہو گی اور اپنے بچوں کو بھی سمجھانا ہو گا۔ مرد اور عورت کے ایک دوسرے کو (جو محرم رشتہ نہ ہو) نہ دیکھنے کے بارے میں
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر محتاط تھے اس بارے میں ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ام سلمہؓ بیان فرماتی ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھی اور آپؐ کے پاس حضرت میمونہ ؓبھی تھیں تو حضرت ابن امّ مکتومؓ آئے اور جب ہمیں پردے کا حکم دیا گیا تھا یہ اسکے بعد کی بات ہے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دونوں اس سے پردہ کرو۔ ہم نے کہا یا رسول اللہ ؐ! کیا وہ نابینا نہیں ہیں؟ ہمیں دیکھ نہیں سکتے اور نہ ہمیں پہچانتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیاتم دونوں بھی نابینا ہو؟ کیا تم دونوں اس کو نہیں دیکھ رہیں؟ (سنن ابو داؤد كِتَابُ اللِّبَاسِ بَابٌ فِیْ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ… حدیث نمبر 4112)
پس یہ ہیں وہ معیار جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قائم فرمانا چاہتے تھے اور اس میں ان لوگوں کا بھی جواب ہے جو بعض مرد ہیں یا عورتیں ہیں جو جماعت میں بھی یہ سوال پیدا کر دیتے ہیں کہ پردے کے بارے میں ہم زیادہ سختی کرتے ہیں، زیادہ سخت نظریات جماعت رکھتی ہے۔
پھرایک برائی جس سے آپ نے اپنی جماعت کو خاص طور پربچنے کی تلقین فرمائی ہے اور اسے شرائط بیعت میں رکھ کر عہد لیا ہے وہ فسق و فجور ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فسق و فجور کرنے والوں کے بارے میں کس قدر سخت ارشاد فرماتا ہے۔ فرماتا ہے: اِنَّا مُنْزِلُوْنَ عَلٰٓى اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْیَةِ رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ(العنکبوت:35) یقینا ًہم اِس بستی کے رہنے والوں پر آسمان سے ایک عذاب اتارنے والے ہیں اس وجہ سے کہ وہ فِسق کرتے ہیں۔پس یہ بڑے خوف کا مقام ہے۔ ہمیشہ استغفار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں رہنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ فسق آج کل دنیا میں ہر جگہ ہر شہر میں پھیلا ہوا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فسق کرنے والوں کے انجام کے بارے میں فرماتا ہے: وَیَوْمَ یُعْرَضُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا عَلَى النَّارِ اَذْهَبْتُمْ طَیِّبٰتِكُمْ فِیْ حَیَاتِكُمُ الدُّنْیَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا فَالْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنْتُمْ تَفْسُقُوْنَ(الاحقاف:21) اور یاد کرو وہ دن جب وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا آگ کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔ تم اپنی سب اچھی چیزیں اپنی دنیا کی زندگی میں ہی ختم کر بیٹھے اور ان سے عارضی فائدہ اٹھا چکے۔ پس آج کے دن تم ذلت کا عذاب دیے جاؤ گے بوجہ اس کے کہ تم زمین میں ناحق تکبر کرتے تھے اور بوجہ اس کے کہ تم فسق کیا کرتے تھے۔اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کیا کرتے تھے۔
ہمیں فسق و فجور سے پاک ہونے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں صالح اور خدا ترس اور خادمِ دین اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو اس کا یہ کہنا بھی نرا ایک دعویٰ ہی دعویٰ ہو گا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت میں ایک اصلاح نہ کرے۔ اگر خود فسق و فجور کی زندگی بسر کرتا ہے اور منہ سے کہتا ہے کہ میں صالح اور متقی اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو وہ اپنے اس دعویٰ میں کذّاب ہے۔
صالح اور متقی اولاد کی خواہش سے پہلے ضروری ہے کہ وہ خود اپنی اصلاح کرے اور اپنی زندگی کو متقیانہ زندگی بنا وے۔ تب اسکی ایسی خواہش ایک نتیجہ خیز خواہش ہو گی اور ایسی اولاد حقیقت میں اس قابل ہو گی کہ اس کو باقیات صالحات کا مصداق کہیںلیکن اگر یہ خواہش صرف اس لئے ہو کہ ہمارا نام باقی رہے اور وہ ہمارے املاک و اسباب کی وارث ہو یا وہ بڑی نامور اور مشہور ہو۔ اس قسم کی خواہش میرے نزدیک شرک ہے۔‘‘(ملفوظات جلد2،صفحہ371، ایڈیشن1984ء)
پس ہمیں اپنے اور اپنے بچوں کے اس گہرائی میں جا کر جائزے لینے کی ضرورت ہے۔
پھر جس بات پر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عہدِبیعت کیا وہ ظلم نہ کرناہے۔ اس بارے میں خدا تعالیٰ ہمیں قرآن کریم میں کس طرح ہوشیار فرماتا ہے۔ فرماتا ہے: فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْ عَذَابِ یَوْمٍ اَلِیْمٍ (الزخرف:66)پس ان لوگوں کیلئے جنہوں نے ظلم کیا ہلاکت ہو دردناک دن کے عذاب کی صورت میں۔
اور ظلم نہ کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کس طرح خوشخبری عطا فرماتا ہے۔ فرماتا ہے: اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَهُمْ مُّهْتَدُوْنَ(الانعام:83) وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو کسی ظلم کے ذریعہ مشکوک نہیں بنایا یہی وہ لوگ ہیں جنہیں امن نصیب ہو گا اور وہ ہدایت یافتہ ہیں۔
ظلم و تعدی کرنے والوں کا کیا انجام ہو گا؟اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس نہ کوئی درہم ہے نہ کوئی سازو سامان ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امّت میں تو مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ پیش ہو گا مگر اس طرح آئے گا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہو گی کسی پر بہتان لگایا ہو گا اور کسی کا مال کھایا ہو گا اور کسی کا خون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا ہو گا۔ اسکو اسکی کوئی نیکی دی جائے گی اور کسی کو اسکی کوئی اور نیکی اور ان کی خطائیں لی جائیں گی اور اس پر ڈال دی جائیں گی۔ جن لوگوں کو مارا جائے گا ان کو اسکی نیکیاں دے دی جائیں گی اور خطائیں جو ان کی ہیں وہ اس پہ ڈال دی جائیں گی پھر اسے آگ میں پھینک دیا جائے گا۔(صحیح مسلم كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ باب تَحْرِیمِ الظُّلْمِحدیث نمبر 6579)یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ سب ظلم کی وجہ سے ردّ کر دی جائیں گی۔
اس روایت کی مزید وضاحت بخاری کی ایک اَور روایت میں ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ انہوں نے کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جس شخص نے دوسرے کی بے عزتی کی ہو یا کوئی اَور ظلم کیا ہو تو چاہئے کہ ظلم کرنے والا اس سے آج دنیا میں معاف کرا لے پیشتر اس کے کہ جب نہ دینار ہو گا نہ درہم۔ اگر اسکا کوئی نیک عمل ہو گا تو جس قدر مظلوم پر ظلم ہو گا اسکے مطابق اسکے نیک اعمال سے لے لیا جائے گا اور اگر اسکی نیکیاں نہ ہوئیں تو مظلوم کی برائیاں لے کر اس ظالم پر ڈال دی جائیں گی۔(صحیح بخاری كِتَابُ الْمَظَالِمِ وَالْغَصْبِ بَابُ مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلَمَةٌ عِنْدَ الرَّجُلِ فَحَلَّلَهَا لَهُ هَلْ یُبَیِّنُ مَظْلَمَتَهُ حدیث نمبر2449)
پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذؓکو یمن کی طرف بھیجا اور آپؐنے فرمایا مظلوم کی بددعا سے بچو کیونکہ اسکے اور اللہ کے درمیان کوئی روک نہیں۔ (صحیح بخاری كِتَاب المَظَالِمِ وَالغَصْبِ بَابُ الِاتِّقَاءِ وَالحَذَرِ مِنْ دَعْوَةِ المَظْلُومِ حدیث نمبر 2448)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں:’’اور اُسکے بندوں پر رحم کرو اور اُن پر زبان یا ہاتھ یا کسی تدبیر سے ظلم نہ کرو اور مخلوق کی بھلائی کیلئے کوشش کرتے رہو۔ اور کسی پر تکبر نہ کرو گو اپنا ماتحت ہو اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو۔ غریب اور حلیم اورنیک نیت اورمخلوق کے ہمدرد بن جاؤ تا قبول کئے جاؤ۔ بہت ہیں جو حلم ظاہر کرتے ہیں مگر وہ اندر سے بھیڑیئے ہیں۔ بہت ہیں جو اُوپر سے صاف ہیں مگر اندر سے سانپ ہیں۔ سو تم اسکی جناب میں قبول نہیں ہوسکتے جب تک ظاہر و باطن ایک نہ ہو۔
بڑے ہوکر چھوٹوں پر رحم کرو نہ ان کی تحقیر اور عالم ہوکر نادانوں کو نصیحت کرو نہ خودنمائی سے ان کی تذلیل اور امیر ہوکر غریبوں کی خدمت کرو نہ خود پسندی سے ان پر تکبر… تم اپنی نفسانیت ہر ایک پہلو سے چھوڑ دو اور باہمی ناراضگی جانے دو اور سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل کرو تا تم بخشے جاؤ۔ نفسانیت کی فربہی چھوڑ دو کہ جس دروازے کیلئے تم بلائے گئے ہو اس میں سے ایک فربہ انسان داخل نہیں ہو سکتا۔
کیا ہی بدقسمت وہ شخص ہے جو ان باتوں کو نہیں مانتا جو خدا کے منہ سے نکلیںاور میں نے بیان کیں۔
تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خدا راضی ہو تو تم باہم ایسے ایک ہو جاؤ جیسے ایک پیٹ میں سے دو بھائی۔ تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے اور بدبخت ہے وہ جو ضد کرتا ہے اور نہیں بخشتا سو اسکا مجھ میں حصہ نہیں۔ خدا کی لعنت سے بہت خائف رہو کہ وہ قدوس اور غیور ہے۔
بدکار خدا کا قرب حاصل نہیں کر سکتا۔ متکبر اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا۔ ظالم اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا۔ خائن اسکا قرب حاصل نہیں کر سکتا …تم ماتحتوں پر اور اپنی بیویوں پر اور اپنے غریب بھائیوں پر رحم کرو تا آسمان پر تم پر بھی رحم ہو۔‘‘(کشتی نوح، روحانی خزائن، جلد19،صفحہ 11تا13)
پس یہ ہیں وہ باتیں۔ بڑے خوف کا مقام ہے۔ ہر وقت ہمیں روز مرہ کے معاملات میں بھی اپنے جائزے لیتے رہنا چاہئے۔
پھرجس بات سے بچنے کا آپ علیہ السلام نے ہم سے عہد لیا وہ خیانت ہے۔
خیانت کرنے والوں کے انجام کے بارے میں اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِیْنَ یَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَهُمْ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا اَثِیْمًا (النساء:108) اور ان لوگوں کی طرف سے بحث نہ کر جو اپنے نفسوں سے خیانت کرتے ہیں۔ یقیناً اللہ سخت خیانت کرنے والے گناہگار کو پسند نہیں کرتا۔ یہاں ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے۔ کیا ہم بیعت کی امانت کا بھی حق ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اس میں کسی طرح سے خیانت تو نہیں ہو رہی ۔ یہ بھی ایک ضروری چیز ہے جو سوچنے والی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جو حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تھے کہ اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں بھوک سے کیونکہ وہ برا ساتھی ہے اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں خیانت سے کیونکہ وہ برا دوست ہے۔(سنن ابو داؤد بَابُ تَفْرِیْعِ أَبْوَابِ الْوِتْرِ بَابٌ فِی الْاِسْتِعَاذَةِحدیث نمبر 1547)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خیانت کے حوالے سے بڑی سخت تنبیہ فرمائی ہے۔
آپؑفرماتے ہیں:’’جو شخص پورے طور پر ہر ایک بدی سے اور ہر ایک بدعملی سے یعنی شراب سے قمار بازی سے بدنظری سے اور خیانت سے، رشوت سے اور ہر ایک ناجائز تصرف سے توبہ نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے… ہر ایک مرد جو بیوی سے یا بیوی خاوند سے خیانت سے پیش آتی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔‘‘ (کشتی نوح، روحانی خزائن، جلد19،صفحہ18)
پھر آپؑفرماتے ہیں:’’انسان کی پیدائش میں دو قسم کے حُسن ہیں۔ ایک حُسنِ معاملہ اور وہ یہ کہ انسان خدا تعالیٰ کی تمام امانتوں اور عہد کے ادا کرنے میں یہ رعایت رکھے کہ کوئی امر حتی الوسع ان کے متعلق فوت نہ ہو۔‘‘ اب اللہ تعالیٰ کی امانتوں میں سے، عہدوں میں سے ایک عہد عہدِبیعت بھی ہے جو حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ سے ہم نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہے۔ فرمایا ’’جیساکہ خدا تعالیٰ کے کلام میں رَاعُوْن کا لفظ اِسی طرف اشارہ کرتا ہے ایسا ہی لازم ہے کہ انسان مخلوق کی امانتوں اور عہد کی نسبت بھی یہی لحاظ رکھے یعنی حقوق اللہ اور حقوقِ عباد میں تقویٰ سے کام لے۔یہ حُسنِ معاملہ ہے یا یوں کہو کہ روحانی خوبصورتی ہے۔‘‘(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن، جلد 21، صفحہ218)
پس یہ روحانی خوبصورتی ہے جو آپؑاپنے ماننے والوں میں دیکھنا چاہتے ہیں بلکہ خیانت کرنے والوں کو آپؑنے سخت تنبیہ فرمائی ہے۔ چنانچہ آپؑفرماتے ہیں:
’’خدا کے واحد ماننے کے ساتھ یہ لازم ہے کہ اسکی مخلوق کی حق تلفی نہ کی جاوے۔ جو شخص اپنے بھائی کا حق تلف کرتا ہے اور اسکی خیانت کرتا ہے وہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا قائل نہیں۔‘‘ (ملفوظات، جلد9،صفحہ 106 حاشیہ، ایڈیشن 1984ء)
پھر فرمایا ’’ادائے قرضہ اور امانت کی واپسی میں بہت کم لوگ صادق نکلتے ہیں اور لوگ اسکی پروا نہیں کرتے حالانکہ یہ نہایت ضروری امر ہے۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کا جنازہ نہیں پڑھتے تھے جس پر قرضہ ہوتا تھا۔ دیکھا جاتاہے کہ جس التجا اور خلوص کے ساتھ لوگ قرض لیتے ہیں اسی طرح خندہ پیشانی کے ساتھ واپس نہیں کرتے بلکہ واپسی کے وقت ضرور کچھ نہ کچھ تنگی ترشی واقع ہو جاتی ہے۔ ایمان کی سچائی اسی سے پہچانی جاتی ہے۔‘‘(ملفوظات، جلد9،صفحہ347، ایڈیشن 1984ء)
پس جو لوگ سمجھتے ہیں یہ معمولی بات ہے۔ قضامیں مقدمے کر دیتے ہیں ٹال مٹول سے کام لے رہے ہوتے ہیں۔ ان کو سمجھنا چاہئے کہ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ وہ تو ان کو یقین ہی نہیں ہے۔ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ پہ یقین نہیں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر یقین نہیں۔ فرمایااگلی بات جس پہ ہر ایک سے آپ نے عہد لیا وہ یہ تھی کہ فساد نہیں کرنا، ہر قسم کے فساد سے بچنا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فساد سے بچنے کی کئی جگہ ہدایت فرمائی ہے۔ ایک جگہ فرمایا وَابْتَغِ فِیْمَآ اٰتٰىكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَكَ مِنَ الدُّنْیَا وَاَحْسِنْ كَمَآ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَیْكَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ(القصص: 78)اور جو کچھ اللہ نے تجھے عطا کیا ہے اس کے ذریعہ دارِآخرت کمانے کی خواہش کر اور دنیا میں سے بھی اپنا معین حصہ نظرانداز نہ کر اور احسان کا سلوک کر جیسا کہ اللہ نے تجھ سے احسان کا سلوک کیا اور زمین میں فساد پھیلانا پسند نہ کر۔ یقیناً اللہ فسادیوں کو پسند نہیں کرتا۔
حضرت جریرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں ان سے فرمایا۔ لوگوں کو سننے کیلئے خاموش کراؤ اسکے بعد آپؐنے فرمایا: میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگ جاؤ۔ (صحیح بخاری كِتَابُ العِلْمِ بَابُ الإِنْصَاتِ لِلْعُلَمَاءِ حدیث نمبر 121)آج کل مسلمانوں کا یہی حال ہے۔ کیا ایک دوسرے کی گردنیں مارنا مومن کا فعل ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو انہیں کافر قرار دیا ہے۔ آپ انہیں کافر کا نام دے رہے ہیںجو مسلمان ہو کر ایک دوسرے کی گردنیں مارتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ رحم کرے مسلم امہ پر بھی اور ہمیں بھی اپنا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے اور انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائے۔
ہر قسم کے فساد سے بچنے کی نصیحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’تمہیں چاہئے کہ وہ لوگ جو محض اس وجہ سے تمہیں چھوڑتے اور تم سے الگ ہوتے ہیں کہ تم نے خدا تعالیٰ کے قائم کر دہ سلسلہ میں شمولیت اختیار کرلی ہے ان سے دنگہ یا فساد مت کرو بلکہ ان کیلئے غائبانہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی وہ بصیرت اور معرفت عطا کرے جو اس نے اپنے فضل سے تمہیں دی ہے۔ تم اپنے پاک نمونہ اور عمدہ چال چلن سے ثابت کر کے دکھاؤ کہ تم نے اچھی راہ اختیار کی ہے۔ دیکھو میں اس امر کیلئے مامور ہوں کہ تمہیں بار بار ہدایت کروں کہ ہر قسم کے فساد اور ہنگامہ کی جگہوں سے بچتے رہو اور گالیاں سن کر بھی صبر کرو۔ بدی کا جواب نیکی سے دو اور کوئی فساد کرنے پر آمادہ ہو تو بہتر ہے کہ تم ایسی جگہ سے کھسک جاؤ اور نرمی سے جواب دو … جب میں یہ سنتا ہوں کہ فلاں شخص اس جماعت کا ہو کر کسی سے لڑا ہے۔ اس طریق کو میں ہرگز پسند نہیں کرتا اور خدا تعالیٰ بھی نہیں چاہتا کہ وہ جماعت جو دنیا میں ایک نمونہ ٹھہرے گی وہ ایسی راہ اختیار کرے جو تقویٰ کی ر اہ نہیں ہے بلکہ میں تمہیں یہ بھی بتادیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ یہاں تک اس امر کی تائید کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص اس جماعت میں ہو کر صبر اور برداشت سے کام نہیں لیتا تو وہ یاد رکھے کہ وہ اس جماعت میں داخل نہیں ہے۔‘‘(ملفوظات، جلد 7، صفحہ203-204، ایڈیشن 1984ء)
پھرآپ علیہ السلام نے ہم سے ہر قسم کی بغاوت سے بچنے کا عہد لیا۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا(النساء:60)اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی بھی اطاعت کرو اور اپنے حکام کی بھی۔ اور اگر تم کسی معاملہ میں اولوالامر سے اختلاف کرو تو ایسے معاملے اللہ اور اسکے رسول کی طرف لوٹا دیا کرو اگر فی الحقیقت تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لانے والے ہو۔ یہ بہت بہتر طریق ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔
اختلاف کی صورت میں معاملے اللہ اور اس کے رسول ؐکی طرف لوٹا دو۔ اسکے معنی یہ ہیں کہ خدا اور اسکے رسولؐ کے حکم کے مطابق فیصلہ کرو۔
وہ حکم یہ ہے کہ انسان حکومت وقت کو اس کی غلطی پر آگاہ کر دے۔ اگر وہ نہ مانے تو پھر اللہ تعالیٰ پر معاملہ چھوڑ دو۔ پھر اللہ تعالیٰ خود ہی جو چاہے گا اس سے کرے گا۔ ہاں دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ انہیں انصاف پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بغاوت سے بچنے اور حکومتِ وقت سے تعاون کے بارے میںکیا نصیحت فرمائی ہے۔ ایک روایت میں حضرت عبداللہؓ سے یہ روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ضرور تم لوگ میرے بعد ترجیحی سلوک دیکھو گے۔ پیشگوئی ہے، ترجیحی سلوک دیکھو گے اور ایسی باتیں جن کو تم اوپرا جانو گے، ایسی باتیں ہوں گی جو یقینا ًاوپری ہوں گی جو اسلام کی تعلیم کے خلاف ہوں گی۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! تو آپؐ ہمیں کیا کرنے کا حکم دیتے ہیں ایسے حالات میں؟ آپؐ نے فرمایا تم ان لوگوں کے حقوق انہیں ادا کرنا اور اللہ سے مانگنا جو تمہارے لیے ہے۔(صحیح بخاری كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَتَرَوْنَ بَعْدِیْ أُمُوْرًا تُنْكِرُوْنَهَا حدیث نمبر 7052)ان کے حقوق ان کو دیتے جاؤ ۔ان سے بغاوت نہیں کرنی اور اللہ کے سامنے جھکو، اللہ سے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں سے تمہیں نجات دے یا ان کو عقل دے اور وہ انصاف کرنے والے ہوں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ’’وَالْفِتْنَةُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ(البقرۃ: 218) … اور بغاوت کو پھیلانا یعنی امن کا خلل انداز ہونا قتل سے بڑھ کر ہے۔‘‘(جنگ مقدس، روحانی خزائن، جلد 6، صفحہ 255)
فرماتے ہیں کہ ’’اگر حاکم ظالم ہو تو اس کو برا نہ کہتے پھرو۔‘‘ ظالم بھی ہو تو برا نہ کہتے پھرو’’بلکہ اپنی حالت میں اصلاح کرو۔ خدا اس کو بدل دے گا یا اسی کو نیک کر دے گا۔ جو تکلیف آتی ہے وہ اپنی ہی بد عملیوں کے سبب آتی ہے۔ ورنہ مومن کے ساتھ خدا کا ستارہ ہوتا ہے، مومن کیلئے خدا تعالیٰ آپ سامان مہیا کر دیتا ہے۔
میری نصیحت یہی ہے کہ ہر طرح سے تم نیکی کا نمونہ بنو خدا کے حقوق بھی تلف نہ کرو اور بندوں کے حقوق بھی تلف نہ کرو۔‘‘(ملفوظات، جلد2،صفحہ298، ایڈیشن 1984ء)
اپنا نمونہ بن جاؤ۔ باقی معاملات اللہ تعالیٰ پہ چھوڑو۔اب یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہمارے اپنے نمونے ایسے ہیں یا ضد میں ہم اپنے آپ کو ہی صحیح سمجھتے ہیں۔
پھر ایک ہدایت آپؑنے یہ فرمائی کہ نفسانی جوشوں سے ہمیشہ بچتے رہو کہ یہ انسان کو شیطان کے پنجے میں گرفتار کر دیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے : اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ وَالْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ(آل عمران:135)یعنی وہ لوگ جو آسائش میں بھی خرچ کرتے ہیں اور تنگی میں بھی اور غصہ دبا جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں۔ اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
اپنی انا اور غصہ پر قابو پانے کی نصیحت فرماتے ہوئے ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو حضرت ابوہریرہؓ نے اسکی روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ پچھاڑنے والا مضبوط نہیں ہے۔ کسی کو کُشتی میں گرانے والا، ہرانے والا مضبوط نہیں ہے۔ مضبوط وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھتا ہے۔(صحیح بخاری كِتَابُ الأَدَبِ بَابُ الحَذَرِ مِنَ الغَضَبِ حدیث 6114)
پھر ایک روایت میں ہے (یہ بھی حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے )کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے نصیحت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غصہ مت کیا کرو۔ اس نے کئی مرتبہ کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر بار یہی فرمایا کہ غصہ مت کیا کرو۔ (صحیح بخاری كِتَابُ الْأَدَبِ بَابُ الْحَذَرِ مِنَ الْغَضَبِ حدیث 6116)پس یہ بہت بڑی برائی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نفسانی جوشوں سے مغلوب نہ ہونے کے بارے میںفرماتے ہیں: ’’وہ بات مانو جس پر عقل اور کانشنس کی گواہی ہے۔ اور خدا کی کتابیں اس پر اتفاق رکھتی ہیں۔ خدا کو ایسے طور سے نہ مانو جس سے خدا کی کتابوں میں پھوٹ پڑ جائے۔زنا نہ کرو۔ جھوٹ نہ بولو۔ اور بدنظری نہ کرو۔ اور ہر ایک فسق اور فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کی راہوں سے بچو۔ اور نفسانی جوشوں کے مغلوب مت ہو۔ پنج وقت نماز ادا کرو کہ انسانی فطرت پر پنج طور پر ہی انقلاب آتے ہیں اور اپنے نبی کریمؐ کے شکر گذار رہو، اُس پر درود بھیجو کیونکہ وہی ہے کہ جس نے تاریکی کے زمانہ کے بعد نئے سرے خدا شناسی کی راہ سکھلائی۔ ‘‘(ضمیمہ تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ525)
پس یہ ہمارا لائحہ عمل ہے۔ اگر ہم اس کے مطابق عمل کر لیں تو جیساکہ میں نے کہا ہم ایک عظیم انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔
ہر جو شرط بیعت ہے وہ اپنے اندر بے پناہ حکمتیں رکھے ہوئے ہے۔ ایک احمدی کو اپنے ایمان کو صیقل کرنے کیلئے ان پر غور کرتے رہنا چاہئے تبھی ہم بیعت کے حق ادا کرنے والے بن سکیں گے۔ جیساکہ میں نے کہا وقت کی رعایت سے میں نے صرف ایک شرطِ بیعت کو اس وقت بیان کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس پہ عمل کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائے۔ پس جلسہ سالانہ میں شاملین چاہے وہ قادیان میں شامل ہونے والے ہیں یا افریقہ کے ممالک کے جہاں جلسے ہو رہے ہیں وہاں بیٹھے ہوئے جلسے سن رہے ہیں یا وہ سننے والے جو دنیا میں مختلف جگہوں پر بیٹھے ہیں اور ایم ٹی اے کے ذریعہ سے جلسہ سن رہے ہیں ہم سب کیلئے یہ ایک لائحہ عمل ہے ۔
اسی طرح آج لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کو بنے ہوئے بھی سو سال ہو گئے ہیں لجنہ کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ جائزہ لیں کہ اس سو سال میں کس حد تک لجنہ نے اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کی ہے اور بیعت کا حق ادا کرنے والا اپنے آپ کو بنایا اور کوشش کی اور کس حد تک اپنے بچوں اور اپنی نسل کو بیعت کا حق ادا کرنے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعاوی سے جوڑنے والا اور ماننے والا بنایا ہے۔
اگر ہم نے اسکے مطابق اپنی نسلوں کی اٹھان کی ہے تو یقیناً لجنہ اماء اللہ کی ممبرات اللہ تعالیٰ کی شکر گزار بندیاں ہیں۔ پس یہ جائزے آج لینے کی ضرورت ہے اور جہاں کمیاں رہ گئی ہیں وہاں ایک عزم کے ساتھ عہد کریں کہ ہم نے لجنہ کی اگلی صدی میں اس عہد کے ساتھ قدم رکھنا ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو عہد بیعت کا حق ادا کرنے والا بنائیں گی۔
اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
اسی طرح ہر شامل جلسہ جو کسی بھی طرح جلسہ میں شامل ہے یہ عہد کرے کہ ہم نے پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرنی ہے اور عہد بیعت کو اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ نبھانا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
قادیان میں جو جلسہ کی حاضری کچھ دیر پہلے آگئی تھی اسکے مطابق وہاں تقریباً ساڑھے چودہ ہزار لوگ موجود ہیں اور سینتیس ممالک کی وہاں نمائندگی ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جیسا کہ میں نے کہا اس جلسہ سے فیض پانے کی بھی توفیق عطا فرمائے دنیا میں ہر جگہ جہاں لوگ بیٹھے ہوئے ہیں جن ملکوں کے میں نے نام لیے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو بھی جلسہ سے فیض پانے کی توفیق عطا فرمائے۔ دعا کرلیں اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ (دعا)
(بشکریہ اخبار الفضل انٹرنیشنل12؍اگست 2023)