اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-03-30

(قسط اوّل)

جلسہ سالانہ  برطانیہ 2022ء کے دوسرے روز مستورات کے اجلاس سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا بصیرت افروز خطاب
فرمودہ مورخہ6؍اگست 2022ء بروزہفتہ بمقام حدیقۃ المہدی آلٹن، ہمپشئر، یو.کے۔

’’کوئی کام بھی ایسا نہیں جو عورت نہیں کرسکتی، وہ تبلیغ بھی کرسکتی ہے، وہ پڑھا بھی سکتی ہے،
وہ لڑائی میں بھی شامل ہوسکتی ہے او راگر مال اور جان کی قربانی کا سوال ہو تو وہ ان کی قربانی بھی کرسکتی ہے
او ربعض کام وہ مردوں سے بھی لے سکتی ہے، مرد بعض دفعہ کمزوری دکھا جاتے ہیں، اس وقت جو غیرت عورت دکھاتی ہے وہ کوئی اَور نہیں دکھا سکتا۔‘‘

عبادتوں اور تعلق باللہ کے اعلیٰ معیارکے قیام، جان، مال، اولاد اور مال کی قربانیوں،
تربیتِ اولاد، ایمان کی خاطر تکالیف برداشت کرنے اوراس پر قائم رہنے، دینی علم کے حصول کے بے مثال شوق
نیز میدانِ عمل میں بہادری دکھانے سے متعلق قرونِ اولیٰ اوردورِ آخرین کی خواتین کے قابلِ تقلید نمونوں کا ولولہ انگیز بیان

جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ برطانیہ 2022ء کے دوسرے روز مستورات کے اجلاس سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا بصیرت افروز خطاب
فرمودہ مورخہ6؍اگست 2022ء بروزہفتہ بمقام حدیقۃ المہدی (جلسہ گاہ) آلٹن، ہمپشئر، یو.کے

 

(قسط اوّل)
اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ
وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ-
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ۝ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝
مٰلكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ۝ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ۝
اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ۝ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ ۥۙ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْہِمْ وَلَاالضَّاۗلِّيْنَ ۝
آج میں آپ کے سامنے بعض عورتوں کی بعض مثالیں پیش کروں گا اور جوواقعات پیش کروں گا ان سےایک حقیقی مسلمان عورت کی دینی اور روحانی حالت کا بھی پتہ چلتا ہے، دین کیلئے غیرت کا بھی پتہ چلتا ہے، دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی روح کا بھی پتہ چلتا ہے۔ اولاد کی تربیت کی فکر کا بھی پتہ چلتا ہے۔ غرض کہ بہت سی اور بھی باتیں ہیں جن سےایک حقیقی مسلمان عورت کا مقام سامنے آتا ہے۔یہ واقعات مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیات کی سیرت سے بھی لیے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے کی احمدی خواتین کے بھی ہیں۔ آپؑکے بعد کے زمانے کی احمدی خواتین کے بھی اور اب تک موجودہ دَور کے بھی ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے زمانے کے بعد خلافت خامسہ سے پہلے کے صرف حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد کے بعض واقعات لیے ہیں۔ صحابیات سے لے کر اب تک ان واقعات کی اتنی بڑی تعداد ہے کہ ایک ایک دَور کے واقعات کو بیان کرنے کیلئے ہی کئی گھنٹے چاہئیں اور اگر لکھا جائے تو کتابوں کی کئی جلدیں چاہئیں اور پھر بھی شاید ختم نہ ہوں۔ ان واقعات کا یوں جمع کرنا ہماری تاریخ میں یہ بتاتا ہے کہ اسلام کی ابتدا سے عورت کا جو مقام تھا اس نے ان مثالوں کو زندہ رکھا ہوا ہے۔
اسلام پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام عورت کو کوئی مقام نہیں دیتا۔
مسلمان عورت کا اسلام کی تاریخ میں ذکر اور اسکی عبادتوں کے معیار، جان مال کی قربانی اور اولاد کی تربیت کی مثالیں جو اب تک زندہ ہیں اور ان مثالوں کی بنیاد پر آئندہ جو عمارتیں استوار ہو رہی ہیں وہی اس بات کا ثبوت ہیں کہ عورت کا اسلام میں ایک مقام ہے۔ دنیا کے تاریخ دان تو اپنی تاریخ میں چند ایک عورتوں کی مثالیں محفوظ کیے ہوئے ہیں لیکن اسلام کی تاریخ میں صرف چند ایک بڑی نامور خواتین کے ہی نام محفوظ نہیں بلکہ بےشمار مثالیں عورتوں کی نیکی اور تقویٰ اور قربانیوں کے حوالے سے محفوظ ہیں اور ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ اب مزید کسی تمہید کے بغیر مَیں بعض مثالیں اور واقعات پیش کرتا ہوںلیکن یہ ضرور کہوں گا کہ عورتیں کہتی ہیں کہ عورتوں کے بھی واقعات بیان کیا کریں۔ تو اگر صرف ان واقعات کو سن کر وقتی طور پر محظوظ ہونا ہے اور متاثر ہونا ہے تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔
ان واقعات کو سننے کا فائدہ تو تبھی ہے جب ان نیک نمونوں کواپنی زندگیوں کا حصہ بھی بنانے کی کوشش کریں۔ پس اس نیت سے انہیں سنیں اور غور کریں۔
عبادتوں اور تعلق باللہ کے معیار قائم کرنے کیلئےجو کوششیں صحابیات عورتیں کرتی تھیں اس بارے میں ایک روایت میں آتا ہے:حضرت عبداللہ بن عباسؓ اپنی والدہ حضرت ام فضل ؓکا ذکر کرتے ہیں کہ میری والدہ کو روزے سے اس قدر محبت تھی کہ ہر پیر اور جمعرات کے دن وہ روزہ رکھا کرتی تھیں۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، جلد8 ،صفحہ 217، دارالکتب العلمیۃ بیروت )
پھر امّ المومنین حضرت میمونہ بنت حارثؓ سے ایک روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین کی ایک جماعت میں مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے۔ حضرت زینب بنت جحشؓ نے کوئی بات کہی۔ حضرت عمرؓ نے ان کو ڈانٹ دیا کہ بیچ میں کیوں بول رہی ہو۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اے عمر! ان کو چھوڑ دو۔ وہ تو اَوَّاہ ہیں یعنی جوخوف خدا اور محبت کی وجہ سے بہت آہیں بھرتا ہو۔ ایک روایت میں یہ ذکر بھی ملتا ہے کسی آدمی نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اَوَّاہکیا ہوتا ہے؟ آپؐنے فرمایا اَلْخَاشِع ، اللہ سے ڈرنے والا۔ اَلدَّعَّاء، بہت دعائیں کرنے والا۔ اَلْمُتَضَرِّع، تضرع اختیار کرنے والا۔ (حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء زیر لفظ زینب بنت جحش، جلد 2، صفحہ 49 حدیث 1494)تو ان عورتوں کا روحانی لحاظ سے یہ مقام تھا۔
جان و مال کی اور اولاد کی قربانی کی مثالیں ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ حضرت عمارؓ کے والدین کا تاریخی رنگ میں ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’آپ کے والد یاسرؓ اور آپ کی والدہ سمیہؓ کو بھی کفار بہت دکھ دیتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ جبکہ ان دونوں کو دکھ دیا جا رہا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے گزرے۔ آپؐنے ان دونوں کی تکلیفوں کو دیکھا اور آپؐکا دل درد سے بھر آیا۔ آپؐان سے مخاطب ہو کر بولےصَبْراً اٰلَ یَاسِر فَاِنَّ مَوْعِدَکُمُ الْجَنَّۃُ ، اے یاسر کے خاندان! صبر سے کام لو!خدا نے تمہارے لئے جنت تیار کر چھوڑی ہے۔اور یہ پیشگوئی تھوڑے ہی دنوں میں پوری ہو گئی کیونکہ یاسرؓ مار کھاتے کھاتے مر گئے۔‘‘ فوت ہو گئے۔ ’’مگر اِس پر بھی کفار کو صبر نہ آیا اور انہوں نے ان کی بڑھیا بیوی سمیہؓ پر ظلم جاری رکھے۔ چنانچہ ابوجہل نے ایک دن غصہ میں ان کی ران پر زور سے نیزہ مارا جو ران کو چیرتا ہوا ان کے پیٹ میں گھس گیا اور تڑپتے ہوئے انہوں نے جان دے دی۔‘‘(دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم، جلد 20، صفحہ195-196)
حضرت امِ شریکؓ نے جب اسلام قبول کیا تو ان کے مشرک رشتہ داروں نے ان کو ان کے گھر سے پکڑ لیا اور ان کو ایک بدترین مست اور شریر اونٹ پر سوار کر دیا اور ان کو شہد کے ساتھ روٹی دیتے رہے اور پینے کیلئے پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں دیتے تھے اور انہیں سخت دھوپ میں کھڑا کر دیتے تھے جس سے ان کے ہوش و حواس جاتے رہے۔ انہوں نے تین دن تک یہی سلوک روا رکھا اور پھر کہنے لگے کہ جس دین پر تو قائم ہے اس کو چھوڑ دے تو ہم تمہیں معاف کر دیں گے۔ حضرت ام شریک ؓکہتی ہیں کہ مَیں ان کی بات نہ سمجھ سکی۔ ہوش و حواس گم ہو گئے تھے اس لیے بات نہیں سمجھ سکیں لیکن کہتی ہیں ہاں چند کلمے سن لیے۔ پھر مجھے انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کر کے بتایا گیا کہ توحید کو چھوڑ دو۔ فرماتی ہیں مَیں نے کہااللہ کی قسم! مَیں توحید پر قائم ہوں۔(ماخوذ از الطبقات الکبریٰ، جلد8 صفحہ 123 دارالکتب العلمیۃ بیروت، ذکر ام شریک)
یہ تھی توحید کی حفاظت ان لوگوں کی۔
حضرت عروہ بن زبیرؓ بیان کرتے ہیں کہ شہادت سے دس دن پہلے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ اپنی والدہ حضرت اسماءؓ کے پاس آئے۔ وہ بہت بیمار تھیں۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے ان کی خیریت دریافت کی تو حضرت اسماءؓ نے کہا مَیں تو سخت تکلیف میں ہوں۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے کہا کہ موت میں راحت ہے۔ انہوں نے دیکھا ایسی حالت ہے، قریب المرگ ہیں انہوں نے تسلی دی کہ اب یہی ہے، موت ہی ہے اور اسی میں راحت ہے، اسی میں سکون ملے گا۔ حضرت اسماءؓ نے بیٹے کو فوراً جواب دیا کہ شاید تم میرے لیے موت کی خواہش کر رہے ہو۔ مَیں اس وقت تک نہیں مروں گی جب تک مَیں دو صورتوں میں سے ایک صورت نہ دیکھ لوں۔ (یہ ایمان تھا، یقین بھی تھا) یا تو تم شہید ہو جاؤ، تمہیں شہید ہوتا دیکھ لوں اور مَیں اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھوں اور یا تم اپنے دشمن پر قابو پا لو اور میری آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں۔ حضرت عروہؓ فرماتے ہیں یہ سن کر حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے میری طرف دیکھا اور مسکرا دیے اور جس دن انہیں شہید کیا گیا وہ مسجد حرام میں اپنی والدہ سے ملاقات کیلئےآئے تو آپ کی والدہ نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے کہا۔ بیٹا قتل ہونے کے ڈر سے کوئی ایسا راستہ قبول نہ کرنا جس میں ذلّت ہو کیونکہ عزت کے ساتھ تلوار کا وار قبول کرنا ذلت کے کوڑوں سے بہتر ہے۔ (الاستيعاب فی معرفۃ الاصحاب، جلد3، صفحہ41 ،عبد اللہ بن زبیر اشاعت 2010ء)یہ جرأت تھی ان عورتوں میں، یہ قربانی کا مادہ تھا اپنی اولاد کیلئے بھی۔
قرونِ اولیٰ کی مسلمان خواتین کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم احد کے میدان سے واپس تشریف لائے تو مدینہ کی عورتیں اور بچے شہر سے باہر استقبال کیلئے نکل آئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی باگ ایک پرانے اور بہادر انصاری صحابی سعد بن معاذؓ نے پکڑی ہوئی تھی اور وہ فخر سے آگے آگے چلے آ رہے تھے۔شہر کے پاس انہیں اپنی بڑھیا ماں جس کی نظر کمزور ہوچکی تھی آتی ہوئی ملی۔ احد میں اس کا ایک بیٹا بھی مارا گیا تھا۔ اس بڑھیا کی آنکھوں میں موتیا بند اتر رہا تھا اور اس کی نظر کمزور ہو چکی تھی۔ وہ عورتوں کے آگے کھڑی ہوگئی اور اِدھر ادھر دیکھنے لگی اور معلوم کرنے لگی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ سعدبن معاذ نے سمجھا کہ میری ماں کو اپنے بیٹے کے شہید ہونے کی خبر ملے گی تو اسے صدمہ ہو گا۔ اس لیے انہوں نے چاہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے حوصلہ دلائیں اور تسلی دیں۔ اس لیے جونہی ان کی نظر اپنی والدہ پر پڑی انہوں نے کہا: یا رسو ل اللہؐ !میری ماں، یارسول اللہؐ !میری ماں۔آپؐنے افسوس کرتے ہوئے اس بڑھیا سے جس کی نظر کمزور ہو چکی تھی ’’فرمایا: بی بی! بڑا افسوس ہے کہ تیرا ایک لڑکا اس جنگ میں شہید ہوگیا ہے۔ بڑھیا کی نظر کمزور تھی اس لئے وہ آپؐکے چہرہ کو نہ دیکھ سکی۔ وہ اِدھر ادھر دیکھتی رہی آخر کار اس کی نظر آپؐکے چہرہ پر ٹِک گئی۔ وہ آپؐکے قریب آئی اور کہنے لگی یارسول اللہؐ! جب مَیں نے آپؐکو سلامت دیکھ لیا ہے توآپ سمجھیں کہ مَیں نے مصیبت کو بھون کر کھا لیا۔
اب دیکھو وہ عورت جس کے بڑھاپے میں عصائے پیری ٹوٹ گیا تھا۔‘‘ ایک جوان بیٹا جو اسکا سہارا تھا وہ ختم ہو گیا۔ ’’کس بہادری سے کہتی ہے کہ میرے بیٹے کے غم نے مجھے کیا کھانا ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں تو مَیں اس غم کو بھون کر کھا جاؤں گی۔ میرے بیٹے کی موت مجھے مارنے کا موجب نہیں ہو گی بلکہ یہ خیال کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں اور آپؐکی حفاظت کے سلسلہ میں میرے بیٹے نے اپنی جان دی ہے میری قوت کو بڑھانے کا موجب ہو گا۔ تو دیکھو عورتوں کی یہ عظیم الشان قربانی تھی جس سے اسلام دنیا میں پھیلا۔‘‘
(قرونِ اولیٰ کی مسلمان خواتین کا نمونہ، انوار العلوم، جلد25، صفحہ 441)
حضرت زِنِّیْرَہؓ رومی اسلام میں سبقت لے جانے والی خواتین میں سے تھیں۔ انہوں نے اسلام کے آغاز میں اسلام قبول کر لیا تھا۔ مشرکین آپؓکو اذیتیں دیتے تھے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ آپؓبنو مخزوم کی لونڈی تھیں اور ابوجہل آپ کو اذیت دیا کرتا تھا اور یہ کہا جاتا ہے کہ آپ بنو عبدالدار کی لونڈی تھیں۔ یا اس کی یا اس کی بہرحال وہ لونڈی ہی تھیں۔ جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو ان کی بینائی چلی گئی۔ اس پر مشرکین نے کہا کہ لات اور عزیٰ نے جو ان کے دو بڑے بت ہیں۔ ان دونوں کے انکار کرنے کی وجہ سے زِنِّیْرَہ کو اندھا کر دیا ہے، انہوں نے اس لیے اس کو اندھا کر دیا ہے، اس کی نظر خراب ہو گئی ہے کہ یہ مسلمان ہو گئی ہے۔ اس پر حضرت زِنِّیْرَہؓنے کہا کہ لات اور عزیٰ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ ان دونوں کی عبادت کون کرتا ہے۔
بڑا مضبوط ایمان تھا۔ یہ تو آسمان سے ہے، یعنی خدا کی منشا ہے، مَیں بیمار ہوئی، تکلیف ہوئی، میری نظر چلی گئی، لوگوں کی ہوتی ہے، اور میرا رب میری بینائی لوٹانے پر قادر ہے لیکن یہ بھی یاد رکھو کہ تم کہتے ہو میری بینائی اس وجہ سے چلی گئی تو پھر میرا رب بھی قادر ہے کہ میری بینائی لوٹا دے۔ میں اس واحد خدا کو نہیں چھوڑوں گی۔ اگلے دن انہوں نے اس حالت میں صبح کی، پھر اللہ تعالیٰ کا بھی سلوک دیکھیں کہ اگلے دن صبح جب وہ اٹھی ہیں تو اللہ تعالیٰ نے آپؓکی بینائی لوٹا دی تھی، نظر بالکل ٹھیک ہو گئی تھی۔ اس پر قریش نے کہا یہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جادو کی وجہ سے ہے کہ محمدؐ نے جادو کر دیا ہے اس لیے بینائی آگئی ہے اور کوئی وجہ نہیں۔ جب حضرت ابوبکرؓ نے ان کی تکالیف دیکھیں جو آپؓکو پہنچائی جاتی تھیں تو انہوں نے ان کو خریدا اور آزاد کر دیا۔(اسد الغابہ، جلد7 (النساء) حرف الزای زِنیرہ الرومیہ، صفحہ124،دار الکتب العلمیۃ 2011ء)
یہ لوگ دین کی خاطر سختیاں کس طرح برداشت کرتے تھے،ایک روایت ہے حضرت ابوبکرؓ ایک دفعہ بنو مؤمل کی ایک لونڈی کے پاس سے گزرے۔ بنو مُؤَمَّلجو بنو عدی بن کعب کا ایک قبیلہ ہے۔ بہرحال وہ لونڈی مسلمان تھی۔ عمر بن خطاب ان کو ایذا دے رہے تھے تا کہ وہ اسلام کو چھوڑ دے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان دنوں ابھی مشرک تھے، اسلام نہیں لائے تھے اور مسلمانوں پر سختیاں کیا کرتے تھے اور اس عورت کو مارا کرتے تھے یہاں تک کہ وہ جب تھک جاتے تو کہتے کہ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ مَیں نے تمہیں صرف تھکاوٹ کی وجہ سے چھوڑا ہے۔ اتنی سخت جان تھیں، اتنی سختیاں برداشت کرتی تھیں کہ حضرت عمرؓ جیسے انسان مار مار کے تھک جاتے تھے لیکن انہوں نے اپنے دین کو نہیں چھوڑا۔ آخر وہ خود تھک کے چھوڑ دیتے تھے۔ اس پر وہ حضرت عمرؓ کو جواب دیتیںکہ اللہ تمہارے ساتھ بھی اسی طرح کرے گا۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے اسے بھی خرید کر آزاد کر دیا۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، صفحہ 166، ذکر عدوان المشرکین علی المستضعفین ممن اسلم بالاذی و الفتنۃ، مکتبہ العصریۃ 2011 ء)
لیکن اللہ تعالیٰ کو حضرت عمرؓ کی کوئی نیکی پسند آئی تھی اس کی وجہ سے ان کو اسلام قبول کرنے کی سعادت دے دی اور وہ سلوک نہیں ہوا۔
مسلمان عورتوں کے اولاد کی قربانی کے معیارکیا تھے۔ حضر ت مصلح موعودؓ نے ایک واقعہ اپنے الفاظ میں اس طرح بیان کیا ہے کہ ’’حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب عراق میں قادسیہ کے مقام پر جنگ جاری تھی توکسریٰ میدان جنگ میں ہاتھی لایا۔ اونٹ ہاتھی سے ڈرتاہے اس لئے وہ انہیں دیکھ کر بھاگتے تھے اور اس طرح مسلمانوں کو بہت نقصان ہوا اور بہت سے مسلمان مارے گئے۔ آخر ایک دن مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ خواہ کچھ ہو آج ہم میدان سے ہٹیں گے نہیں جب تک دشمن کو شکست نہ دے لیں۔ ایک عورت حضرت خنساءؓ اپنے چار بیٹوں کو لے کر میدانِ جنگ میں آئیں اور ان کو مخاطب کرکے کہنے لگیں کہ پیارے بیٹو! تمہارے باپ نے اپنی زندگی میں ساری جائیداد تباہ کردی تھی … اور جب تمہارا باپ مرا تو اس نے کوئی جائیداد نہ چھوڑی۔‘‘ بڑی غربت کی حالت تھی۔ ’’مَیں اس وقت جوان تھی۔ تمہارے باپ کی کوئی جائیداد نہ تھی۔ پھر اپنی زندگی میں اس نے میرے ساتھ کو ئی حسنِ سلوک بھی نہیں کیا تھا‘‘ کہ مَیں کہوں کہ اسکی عزت کی خاطر اسکے بچوں کی حفاظت کروں، کوئی حسنِ سلوک نہیں کیا تھا اس نے میرے سے اور ’’اگر عرب کے رسم و رواج کے مطابق میں بدکار ہو جاتی توکوئی اعتراض کی بات نہ تھی۔‘‘ اس وقت رواج تھا، اس طرح کھلی عورتیں تھیں، بے حیائیاں عام تھیں۔ اب بھی معاشرے میں بے حیائیاں عام ہو رہی ہیں مگر کہتی ہیں کہ ’’مگر مَیں نے اپنی تمام عمر نیکی سے گزاری۔ اب‘‘ کہنے لگیں اپنے بیٹوں کو کہ ’’کل فیصلہ کن جنگ ہونے والی ہے۔ میرے تم پر بہت سے حقوق ہیں۔
کل کفر او ر اسلام میں مقابلہ ہوگا اگرتم فتح حاصل کیے بغیر واپس آئے تومیں خداتعالیٰ کے حضورکہوں گی کہ مَیں ان کو اپناکوئی بھی حق نہیں بخشتی۔
اس طر ح اس نے اپنے چاروں بیٹوں کو جنگ میں تیار کرکے بھیج دیا اورپھر گھبراکر‘‘ آخر بیٹے تھے ان کا پیار بھی غالب آ گیا تو گھبرا کر ’’خود جنگل میں چلی گئی اوروہاں تنہائی میں سجدہ میں گرکر اور رو روکر اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگنے لگی اور دعا یہ کی کہ اے میرے خدا! مَیں نے اپنے چاروں بیٹوں کو دین کی خاطر مرنے کیلئے بھیج دیاہے لیکن تجھ مَیں یہ طاقت ہے کہ ان کو زندہ واپس لے آئے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ مسلمانوں کو فتح بھی ہو گئی اور اس ے چاروں بیٹے بھی زندہ واپس آگئے۔
یہ جرأت او ر بہادری ایمان بالآخرۃ ہی کا نتیجہ تھی۔یہ لوگ سمجھتے تھے کہ دنیا کی نجات اسلام سے وابستہ ہے اورہم خواہ مارے بھی جائیں تب بھی پرواہ نہیں کیونکہ دنیا بچ جائے گی اوراسلام کو غلبہ حاصل ہوجائے گا۔‘‘(تفسیر کبیر، جلد7صفحہ338-339)
مالی قربانی کی مثالیںہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن گھر سے نکلے اور دو رکعت نماز ادا کی۔ ان سے پہلے اور بعد میں آپؐنے کوئی نوافل ادا نہیں کیے۔ پھر آپؐعورتوں کی طرف گئے۔آپؐکے ساتھ حضرت بلالؓ بھی تھے۔ پھر آپؐنے عورتوں کو نصائح فرمائیں اور انہیں صدقہ کرنے کا حکم دیا چنانچہ عورتیں اپنی بالیاں اور کنگن اتار اتار کر دینے لگیں۔(بخاری، کتاب الزکاۃ، باب التحریض علی الصدقہ والشفاعۃ فیھا حدیث 1431)جو زیور انہوں نے پہنا ہوا تھا اتار کر دے دیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔
حضرت عائشہ ؓکی سخاوت اور ان کی ذاتی سادگی کے بارے میں ان کی زندگی کے واقعات ملتے ہیں ۔
حضرت عروہؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے حضرت عائشہ ؓکو ستر ہزار درہم تقسیم کرتے دیکھا ہے۔ اس قدر مال و دولت ہونے کے باوجود آپؓ اپنی قمیض کے گریبان پر پیوند لگاتی تھیں۔ (حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء لابی نعیم، جلد2، صفحہ43 ،44، روایت نمبر 1472مکتبہ الایمان المنصورہ 2007ء)
اپنی کوئی پروا نہیں کرتی تھیں۔ ایک واقعہ حضرت عائشہ ؓکا حضرت مصلح موعودؓنے بیان کیا کہ ’’حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا گو خود نہیں کماتی تھیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپؓ کے تعلق کی وجہ سے صحابہ آپؓکی خدمت میں اکثر ہدایا بھجواتے رہتے تھے۔‘‘تحفے بھجواتے رہتے تھے ’’لیکن وہ بھی اپنا اکثر روپیہ غرباء اور مساکین میں تقسیم فرما دیا کرتی تھیں۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ بعض دفعہ ایک ایک دن میں ہزارہا روپیہ آپؓکے پاس آیا مگر آپؓ نے وہ سب کا سب شام تک تقسیم کر دیا اور ایک پائی بھی اپنے پاس نہ رکھی۔ اِس پر ایک سہیلی نے کہا، آپؓ روزہ سے تھیں، افطاری کیلئے چار آنے تو رکھ لیتیں‘‘ کچھ تو پاس ہوتا، افطاری ٹھیک طرح کر لیتیں۔ ’’آپؓ نے فرمایا تم نے پہلے کیو ں نہ یاد دلایا۔‘‘یہ صرف اس کو ٹالنے کیلئے بات کی۔ ’’ان کی عادت کو دیکھ کر‘‘ کہ بڑی اس طرح غریب پروری کرتی ہیں کوئی پیسہ اپنے پاس نہیں رکھتیں ’’ایک دفعہ ان کے بھانجے نے جس نے ان کے مال کا وارث ہونا تھا کہیں کہہ دیا کہ حضرت عائشہ ؓتو اپنا سارا مال لٹا دیتی ہیں۔ یہ خبر جب حضرت عائشہ ؓکو پہنچی تو آپؓنے اپنے گھر میں اس کا آنا جانا بند کر دیا اور قسم کھا ئی کہ اگر مَیں نے اسے اپنے گھر میں آنے کی اجا زت دی تو مَیں اس کا کفارہ ادا کروں گی۔ کچھ عرصہ کے بعد صحابہؓ نے درخواست کی کہ آپؓاس کا قصور معاف فرما دیں۔ چنانچہ ان کے زور دینے پر حضرت عائشہؓ نے ان کو معاف کر دیا‘‘ بھانجے کو معاف تو کر دیا ’’مگر فرمایا کہ چونکہ مَیں نے یہ عہد کیا تھا کہ اگرمَیں اسے معاف کروں گی تو کفارہ ادا کروں گی اس لئے مَیں اسکا کفارہ یہ قراردیتی ہوں کہ آئندہ میرے پاس جو دولت بھی آئیگی وہ مَیں سب کی سب غرباء اور یتامٰی اورمساکین کی بہبودی کیلئے تقسیم کر دیا کروں گی۔‘‘(سیرِروحانی(6)،انوارالعلوم، جلد22،صفحہ578-579)
ام عمارہ کی بہادری اور بچوں کی تربیت اور ایمان پر قائم رہنےکے واقعات ملتے ہیں۔ ایک واقعہ ہے، اس کو پڑھیں اور دیکھیں اور سوچیں تو پتہ لگتا ہے کہ کس شان کی عورت تھیں۔ حضرت مصلح موعودؓنے اس واقعہ کو بیان کیا ہے کہ ’’آدھی رات کے بعد پھر وادی عقبہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مدینہ کے مسلمان جمع ہوئے۔‘‘ یہ شروع میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تھے۔ ’’اب آپؐکے ساتھ آپؐکے چچا عباسؓ بھی تھے۔‘‘ مدینہ کے لوگ آئے ان کو ملنے کیلئے گئے۔ ’’اس دفعہ مدینہ کے مسلمانوں کی تعداد تہتر تھی۔ ان میں باسٹھ خزرج قبیلہ کے تھے اور گیارہ اوس کے تھے اور اس قافلہ میں دو عورتیں بھی شامل تھیں جن میں سے ایک بنی نجار قبیلہ کی امِ عمارہؓ بھی تھیں۔ چونکہ مصعب کے ذریعہ سے اِن لوگوں تک اسلام کی تفصیلات پہنچ چکی تھیں یہ لوگ ایمان اور یقین سے پُر تھے۔ بعد کے واقعات نے ظاہر کر دیا کہ یہ لوگ آئندہ اسلام کا ستون ثابت ہونے والے تھے۔ امِ عمارہؓ جو اس دن شامل ہوئیں انہوں نے اپنی اولاد میں اسلام کی محبت اتنی داخل کردی کہ ان کا بیٹا خبیبؓ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مسیلمہ کذاب کے لشکر کے ہاتھ میں قید ہو گیا تو مسیلمہ نے اسے بلا کر پوچھا کہ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں؟ خبیبؓ نے کہا ہاں۔ پھر مسیلمہ نے کہا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ مَیں اللہ کا رسول ہوں؟ خبیبؓ نے کہا نہیں۔ اس پر مسیلمہ نے حکم دیا کہ ان کا عضو کاٹ لیا جائے۔‘‘ جسم کا ایک ٹکڑا کاٹ دو۔ ’’تب مسیلمہ نے پھر ان سے پوچھا۔ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟ خبیبؓ نے کہا ہاں۔ پھر اس نے کہا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ مَیں اللہ کا رسول ہوں؟ خبیبؓ نے کہا نہیں‘‘ اب ایک بازو کٹ گیا یا کوئی عضو کٹ گیا اسکے بعد پھر وہی بات کی۔ ’’پھر اس نے آپؓکا ایک دوسرا عضو کاٹنے کا حکم دے دیا۔‘‘ دوسرا بازو کاٹ دیا یا ٹانگ کا حصہ کاٹ دیا۔ ’’ہر عضو کاٹنے کے بعد وہ سوال کرتا جاتا تھا کہ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ مَیں اللہ کا رسول ہوں اور خبیبؓکہتا تھا کہ نہیں۔ اِسی طرح اسکے سارے اعضاء کاٹے گئے اور آخر میں اِسی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اپنے ایمان کا اعلان کرتے ہوئے وہ خدا سے جاملا۔‘‘یہ سب تربیت تھی ام عمارہؓ کی۔ جس کی وجہ سے ان کایہ مضبوط ایمان تھا۔ ’’خودامِ عمارہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت سی جنگوں میں شامل ہوئی ہیں۔‘‘
(انوارالعلوم، جلد20،صفحہ220-221)
نیکیوں کے معیار کے بارے میں ایک روایت ہے، ابن ابی مُلَیکہ سے روایت ہے کہ حضرت اسماءؓ نے کہا مَیں حضرت زبیرکے گھر کام کاج کیا کرتی تھی۔ ان کا ایک گھوڑا تھا جسکی میں نگہداشت کرتی۔ گھوڑے کی دیکھ بھال سے زیادہ مشکل مجھے کوئی اَور کام نہ لگتا تھا۔ مَیں اس کیلئے گھاس لاتی اور اسکی دیکھ بھال کرتی اور اس کا خیال رکھتی۔ یہ راوی کہتے ہیں پھر انہیں ایک خادمہ ملی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قیدی آئے تو آپؐنے انہیں ایک خادمہ عطا کی۔ حضرت اسماءؓ کہتی ہیں اس نے مجھے گھوڑے کی دیکھ بھال سے مستغنی کر دیا اور مجھ سے یہ بوجھ اتار دیا۔ پھر میرے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا اے ام عبداللہ! مَیں ایک غریب آدمی ہوں مَیں چاہتا ہوں کہ تمہارے گھر کے سائے میں کاروبار کروں۔ حضرت اسماءؓ نے کہا کہ اگر مَیں تمہیں اجازت بھی دوں گی تو حضرت زبیرؓ انکار کر دیں گے۔ پس تم آنا اور مجھ سے زبیر کی موجودگی میں پوچھنا۔ وہ شخص آیا اس نے کہا ام عبداللہ! مَیں ایک غریب آدمی ہوں۔ چاہتا ہوں کہ آپ کے گھر کے سائے میں کاروبار کروں۔ انہوں نے کہا کیا تجھے مدینہ میں میرا ہی گھر نظر آیا ہے؟ حضرت زبیرؓ نے انہیں کہا تمہیں کیا ہوا ہے تم ایک غریب آدمی کو کاروبار سے منع کرتی ہو؟ پھر بہرحال اسکو اجازت دے دی تجارت کرتا رہا یہاں تک کہ اس نے کچھ کمائی کر لی اور کہتی ہیں کہ میں نے اپنی خادمہ اسکے ہاتھ بیچ دی۔ حضرت زبیرؓ میرے پاس آئے تو اسکی قیمت میری گود میں تھی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے پیسے ہبہ کر دو۔ حضرت اسماءؓ نے کہا کہ یہ رقم جو مجھے آئی ہے یہ تو میں پہلے ہی صدقہ کر چکی ہوں۔(صحیح مسلم ،کتاب السلام، باب جواز ارداف المرأۃ الاجنبیۃ…،حدیث نمبر5693)
کام کرنے کیلئےایک عورت ملی، اس سے ان کا بوجھ ہلکا ہوا لیکن کیونکہ ضرورت تھی اس کو بیچ دیا۔ بیچنے کے بعد جو رقم آئی اس کو اپنے اوپر خرچ نہیں کیا۔ خاوند نے مانگا تو اسکو بھی نہیں دیا۔ انہیں کہا یہ تو مَیں نے صدقہ کر دیا ہے۔ پس اس شخص کی غریب پروری بھی کر دی، خاوند کے گھر کی حفاظت کا جو معیار قائم کرنا تھا وہ بھی قائم رکھا اور مال سے بے رغبتی کا اظہار بھی کر دیا۔ تو یہ نمونے تھے۔
ان لوگوں کی دینی علم بڑھانے کی طرف توجہ اور دین سیکھنے کی طرف توجہ کس طرح تھی۔ حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ عورتوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپؐسے ملنے میں مرد ہم پر غالب آ گئے ہیں توآپؐہمارے لیے اپنے ساتھ کوئی دن مقرر فرما دیں چنانچہ آپؐنے ان کیلئے ایک دن مقرر کیا۔(صحیح البخاری ،کتاب العلم، باب ھل یجعل للنساء یوم… حدیث نمبر101)جس میں آپؐ ان سے ملاقات کیا کرتے تھے اور ان کو دین سکھایا کرتے تھے۔ یہ بھی ان کو شوق تھا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اپنی تفسیر میں سورہ نور کی آیت 32کے حوالے سے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’اسلام ہرگز یہ حکم نہیں دیتا کہ عورتیں گھروں میں بند ہو کر بیٹھ جائیں اور نہ ابتدائے اسلام میں مسلمان عورتیں ایسا کرتی تھیں بلکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وعظ سننے آتی تھیں ۔جنگوں میں شامل ہوتی تھیں۔ زخمیوں کی مرہم پٹیاں کرتی تھیں۔ سواری کرتی تھیں۔ مردوں سے علوم سیکھتی اور سکھاتی تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق تو یہاں تک ثابت ہے کہ آپؓمردوں کو رسول کریم ﷺ کی حدیثیں سنایا کرتی تھیں … غرض ان کو پوری عملی آزادی حاصل تھی۔ صرف اس امر کا ان کو حکم تھا کہ اپنے سر گردن اور منہ کے وہ حصے جو سر اور گردن کے ساتھ وابستہ ہیں ان کو ڈھانپے رکھیں تاکہ وہ راستے جو گناہ پیدا کرتے ہیں بند رہیں اور اگر اس سے زیادہ احتیاط کر سکیں تو نقاب اوڑھ لیں لیکن یہ کہ گھروں میں بند رہیں اور تمام علمی اور تربیتی کاموں سے الگ رہیں یہ نہ اسلام کی تعلیم ہے ۔‘‘ اسلام یہ نہیں کہتا کہ گھروں میں بند ہو جاؤ ’’اور نہ اس پر پہلے کبھی عمل ہوا ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کا یہ طریق تھا کہ آپ امن کے زمانہ میں صحابہ کرامؓ سے ہمیشہ دوستانہ مقابلے کروایا کرتے تھے جن میں تیر انداز ی اور دوسرے فنون حرب اور قوت و طاقت کے مظاہر ے ہوتے تھے۔ ایک دفعہ اسی قسم کے کھیل آپ نے مسجد میں بھی کرائے اور حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ اگر دیکھنا چاہو تو میرے پیچھے کھڑے ہو کر کندھوں کے اوپر سے دیکھ لو۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپؐکے پیچھے کھڑی ہو گئیں اور انہوں نے تمام جنگی کرتب دیکھے۔‘‘
اب ہم یہ صرف مثال پیش کرتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت کی کہ دیکھو جی بیوی کے جذبات کا خیال رکھا اور اسے دکھایا۔ صرف اتنی سی بات نہیں ہے اس میں اَور گہرائی ہے۔ ’’اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام عورت کو فنون حرب سے واقف رکھنا بھی ضروری قرار دیتا ہے۔‘‘ یہ دکھایا اس لیے بھی گیا تھا کہ ان کو پتہ لگے کہ تلوار کس طرح چلائی جاتی ہے اور جنگی صورت میں کیا کرتب دکھائے جاتے ہیں ’’تا کہ وقت پر وہ اپنی اور اپنے ملک کی حفاظت کر سکیں۔‘‘ یہ ایک ٹریننگ تھی۔ صرف محبت کا یا جذبات کا خیال نہیں تھا۔ ’’اگر اس کا دل تلوار کی چمک سے کانپ جاتا ہے یا بندوق اور توپ کی آواز سن کر اس کا خوں خشک ہو جاتا ہے‘‘ عورت کا دل ’’تو وہ اپنے بچوں کو خوشی سے میدان جنگ میں جانے کی اجازت نہیں دے سکتی‘‘ وہ تو ڈرتی رہے گی ’’اور نہ دلیری سے خود ملک کے دفاع میں حصہ لے سکتی ہے۔‘‘ (تفسیر کبیر ،جلد ششم ،صفحہ 303)
عورتوں کی بہادری کے بارے میں بھی اسلام کی تاریخ سے واقعات لکھتے ہوئے آپؓنے بیان کیا کہ عورتوں نے اسلامی جنگوں میں وہ کام کیے ہیں جو بے پردہ یورپین عورتیں آج بھی نہیں کر رہیں۔
’’ اسلامی جنگوں میں‘‘ عورتوں نے ’’وہ وہ کام کئے ہیں جو بے پردہ یورپین عورتیں آج بھی نہیں کر رہیں۔‘‘ لوگ کہتے ہیں جی پردہ روک ہے، پردہ کوئی روک نہیں۔ ’’حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں حضرت ضرارؓ جوایک بہادر صحابی تھے غفلت کی وجہ سے رومیوں کی قید میں آگئے اور رومی انہیں پکڑ کر کئی میل تک ساتھ لے گئے۔ ان کی بہن خولہؓ کواس کا پتہ لگا تو وہ اپنے بھائی کی زرہ اور سامانِ جنگ لے کر گھوڑے پر سوار ہوکر ان کے پیچھے گئیں اور دشمن سے اپنے بھائی کو چھڑا لانے میں کامیاب ہوگئیں۔ اس وقت رومی سلطنت طاقت وقوت کے لحاظ سے ایسی ہی تھی جیسی آج کل انگریزوں کی حکومت ہے۔‘‘ یہ اس زمانے کی بات ہے جب انڈیا اور برصغیرمیں انگریزوں کی حکومت تھی اور دنیامیں اکثر جگہوں پر تھی ’’مگر اس کی فوج ایک صحابی کو قید کرکے لے گئی تو ان کی بہن اکیلی ہی باہر نکلی اور کئی میل تک رومی سپاہیوں کے پیچھے چلی گئی اور پھر بڑی کامیابی سے اپنے بھائی کو ان کی قید سے چھڑا لائی اور مسلمانوں کو اِس بات کا اس وقت پتہ لگا جب وہ اپنے بھائی کو واپس لے آئی۔‘‘
(قرونِ اُولیٰ کی مسلمان خواتین کا نمونہ اپنے سامنے رکھو، انوارالعلوم جلد 25 صفحہ427-428)
حضرت ام عمارہ ؓکی بہادری کا تھوڑا ذکر بھی پہلے ہوا تھا اور پھر جنگوں میں بھی انہوں نے بعض دفعہ حصہ لیا تو یہ واقعہ جنگ احد کا ہے۔ حضرت ام عمارہؓ جنگ احد میں شریک ہوئیں، نہایت پامردی سے لڑیں۔ جب تک مسلمان فتح یاب تھے وہ مشک میں پانی بھر کر لوگوں کو پلا رہی تھیں۔ جب پلڑا مسلمانوں کی طرف بھاری تھا، اس طرف مسلمان جیت رہے تھے تو وہ یہ خدمت کر رہی تھیں کہ جنگی فوجیوں کو پانی پلا رہی تھیں لیکن جب شکست ہوئی، بعض لوگوں کی غلطی کی وجہ سے جب فتح شکست میں بدل گئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچیں اور پھر وہاں سینہ سپر ہو گئیں۔آنحضرت ﷺ کے پاس آکے کھڑی ہو گئیں۔ سب سے خطر ناک جگہ تو وہی تھی۔ کفار جب آپؐکی طرف بڑھتے تو تیر اور تلوار سے روکتی تھیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود بیان فرماتے ہیں کہ مَیں نے احد میں ان کو اپنے دائیں اور بائیں لڑتے ہوئے دیکھا ہے۔
ابن قَمِئہ جب تیزی سے آنحضرتﷺ کے پاس پہنچ گیا تو حضرت ام عمارہؓ نے بڑھ کر روکا۔ چنانچہ ان کو اس جنگ میں کندھے پر گہرا زخم آیا۔ انہوں نے بھی تلوار ماری لیکن وہ دوہری زرہ پہنے ہوئے تھا اس لیے کارگر نہ ہوئی۔(ماخوذ از السیرۃ النبویہ لابن ہشام زیر ذکر شان عاصم بن ثابت، صفحہ 534) (طبقات الکبریٰ جلد 8 صفحہ 305 دار الکتب العلمیۃ بیروت) اور ام عمارہ زخمی ہوگئیں۔ انکا وار اتنا کارگر نہیں ہوا۔ تو یہ تھا صحابیات کا کچھ ذکر۔(باقی آئندہ)
(بشکریہ اخبار الفضل انٹرنیشنل 4؍اکتوبر2022)