عبادتوں اور تعلق باللہ کے اعلیٰ معیارکے قیام، جان، مال، اولاد اور مال کی قربانیوں، تربیتِ اولاد، ایمان کی خاطر تکالیف برداشت کرنے اوراس پر قائم رہنے، دینی علم کے حصول کے بے مثال شوق نیز میدانِ عمل میں بہادری دکھانے سے متعلق قرونِ اولیٰ اوردورِ آخرین کی خواتین کے قابلِ تقلید نمونوں کا ولولہ انگیز بیان
جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ برطانیہ 2022ء کے دوسرے روز مستورات کے اجلاس سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا بصیرت افروز خطاب فرمودہ مورخہ6؍اگست 2022ء بروزہفتہ بمقام حدیقۃ المہدی (جلسہ گاہ) آلٹن، ہمپشئر، یو.کے
’’کوئی کام بھی ایسا نہیں جو عورت نہیں کرسکتی، وہ تبلیغ بھی کرسکتی ہے، وہ پڑھا بھی سکتی ہے،
وہ لڑائی میں بھی شامل ہوسکتی ہے او راگر مال اور جان کی قربانی کا سوال ہو تو وہ ان کی قربانی بھی کرسکتی ہے
او ربعض کام وہ مردوں سے بھی لے سکتی ہے، مرد بعض دفعہ کمزوری دکھا جاتے ہیں، اس وقت جو غیرت عورت دکھاتی ہے وہ کوئی اَور نہیں دکھا سکتا‘‘
عبادتوں اور تعلق باللہ کے اعلیٰ معیارکے قیام، جان، مال، اولاد اور مال کی قربانیوں،
تربیتِ اولاد، ایمان کی خاطر تکالیف برداشت کرنے اوراس پر قائم رہنے، دینی علم کے حصول کے بے مثال شوق
نیز میدانِ عمل میں بہادری دکھانے سے متعلق قرونِ اولیٰ اوردورِ آخرین کی خواتین کے قابلِ تقلید نمونوں کا ولولہ انگیز بیان
جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ برطانیہ 2022ء کے دوسرے روز مستورات کے اجلاس سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا بصیرت افروز خطاب فرمودہ مورخہ6؍اگست 2022ء بروزہفتہ بمقام حدیقۃ المہدی (جلسہ گاہ) آلٹن، ہمپشئر، یو.کے
(قسط دوم آخری)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کی خواتین کا ذکر
حضرت اماں جان حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کے ذکر سے شروع کرتا ہوں۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں۔ یہ زمانہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ ہے یہ ایسی جنگوں کا زمانہ تو نہیں جو پہلے زمانے میں ہوتی تھیں۔ یہ تو مالی قربانیوں کا زمانہ ہے۔ یہ علمی خزانے لٹانے کا زمانہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرمودات سے آپؑ کی کتب سے، آپؑ کے لٹریچر سے یہ فیض اٹھا کر دشمن کا علمی لحاظ سے منہ بند کرنے کا زمانہ ہے اور یہی دشمن بھی ہتھیار استعمال کر رہا ہے اور اسی کو ہم نے استعمال کرنا ہے۔ مالی قربانیوں کا زمانہ ہے کیونکہ اس کے لیے مالی قربانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہرحال اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ دعاؤں کی طرف توجہ دینے کا زمانہ ہے۔ دعاؤں سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہماری جیت دعاؤں سے ہی ہو گی۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایک روایت بیان کرتے ہیں، آپؓ فرماتے ہیں کہ حضرت اماں جانؓ کی نیکی اور دینداری کا مقدم ترین پہلو نماز اور نوافل میں شغف تھا۔ پانچ نمازوں کا تو کیا کہنا،حضرت اماں جانؓ نماز تہجد اور نماز ضحی کی بھی بے حد پابند تھیں اور انہیں اس ذوق و شوق سے ادا کیا کرتی تھیں کہ دیکھنے والوں میں بھی ایک خاص کیفیت پیدا ہو جاتی تھی بلکہ ان نوافل کے علاوہ بھی جب موقع ملتا نماز میں دل کا سکون حاصل کرتی تھیں۔ پھر دعا میں بھی حضرت اماں جانؓ کو بے حد شغف تھا۔ اپنی اولاد اور ساری جماعت کے لیے جسے وہ اولاد کی طرح سمجھتی تھیں، بڑے درد و سوز کے ساتھ دعا کیا کرتی تھیں اور احمدیت کی ترقی کے لیے ان کے دل میں غیر معمولی تڑپ تھی۔ اپنی ذاتی دعاؤں میں جو کلمہ ان کی زبان پر سب سے زیادہ آتا وہ یہ مسنون دعا تھی کہ يَا حَيُّ يَا قَيُّوْمُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيْثُ۔ یعنی اے میرے زندہ خدا! اور اے میرے زندگی بخشنے والے آقا! مَیں تیری رحمت کا سہارا ڈھونڈتی ہوں۔
حضرت اماں جانؓ کی رمضان المبارک کے مہینے کی کیفیت کے بارے میںحضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے لکھا ہے کہ رمضان المبارک میں آپؓ بہت زیادہ خیرات دیتی تھیں۔ تین چار آدمیوں کا کھانا اکثر اپنے ہاتھ سے پکا کر دیتی تھیں۔ ویسے نقدی اور جنس کی صورت میں بھی بےحد خیرات کرتی تھیں۔ رمضان المبارک کے علاوہ محرم میں بھی صدقہ و خیرات بہت فرماتیں اور گھر میں بھی نوکروں وغیرہ کو اچھا کھلاتیں۔ فرماتیں سال شروع ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ جو شروع سال میں خیرات کرے گا اور اپنے پر فراخی کرے گا اس کو سال بھر فراخی رہے گی۔(ماخوذ از الفضل انٹرنیشنل 22 مارچ 2019ء اور 29 مارچ 2019ء(خصوصی اشاعت) صفحہ 44)
تو یہ اصول بھی آپ نے بتایا کہ سال کے شروع میں صدقہ و خیرات کرو تو یہ بھی آزمالو کہ اللہ تعالیٰ پھر سارا سال فراخی سے گزارتا ہے۔
حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی والدہ کا ذکر آتا ہے۔ ان کی بیعت کا واقعہ ہے۔چودھری صاحب بیان کرتے ہیں کہ ’’جب والد صاحب کچہری سے واپس آئے تو انہوں نے والدہ صاحبہ سے دریافت کیا: کیا آپ مرزا صاحب کی زیارت کے لیے گئے تھے؟‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام وہاں گئے ہوئے تھے۔ ’’والدہ صاحب نے جواب دیا گئی تھی۔ والد صاحب نے پوچھا بیعت تونہیں کی؟ والدہ صاحبہ نے سینہ پر ہاتھ رکھ کر کہا الحمد للہ کہ مَیں نے بیعت کر لی ہے۔ اس پر والد صاحب نے کچھ رنج کا اظہار کیا‘‘ غصہ کا اظہار کیا۔ ’’والدہ صاحبہ نے جواب دیا کہ یہ ایمان کا معاملہ ہے اس میں آپ کی خفگی مجھ پر کوئی اثر نہیں کر سکتی اگر یہ امر آپ کو بہت ناگوار ہے تو آپ جو چاہیں فیصلہ کر دیں‘‘ پھر جو چاہیں فیصلہ کر دیں۔ یہ ایمان کا معاملہ ہے میں تو اس کو نہیں چھوڑوں گی اور پھر کہنے لگیں کہ
’’جس خدا نے اب تک میری حفاظت اور پرورش کا سامان کیا ہے وہ آئندہ بھی کرے گا۔‘‘(میری والدہ تالیف حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب ؓ صفحہ 27)
اتنا زیادہ ایمان تھا ان میں کہ ایک عورت ان کو ہمیشہ ڈرایا کرتی تھی کہ میری بددعا سے تمہارے بچے مر جائیں گے لیکن دو بچے فوت ہوئے اور یہ لمبا قصہ ہے لیکن انہوں نے اس کی بات نہیں مانی اور انہوں نے کہا کہ توحید کو مَیں نہیں چھوڑوں گی، دو بچے قربان کر دیے پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو بیٹوں سے نوازا بھی۔(ماخوذ از میری والدہ تالیف حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب ؓ صفحہ 8تا 14)
اسی طرح امۃ اللہ بشیر صاحبہ اپنی والدہ فخر النساء صاحبہ کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ ’’مرحومہ‘‘ فخر النساء ’’حیدرآباد دکن کے ایک مشہور و ممتاز خاندان کی فرد تھیں…مرحومہ اکثر فرمایا کرتی تھیں کہ مَیں نے اپنے شوہر کا دل خوش کرنے یا ان کا ساتھ دینے کے لئے بیعت نہیں کی تھی بلکہ پوری طرح احمدیت کی صداقت منکشف ہو جانے پر کی تھی اور اپنی بیعت کا واقعہ اس طرح سناتیں کہ جب ان کے شوہر نے واپسی قادیان کے بعد انہیں تبلیغ کی تو وہ یہ کہنے لگیں کہ میں زیادہ علم نہیں رکھتی اس لئے مَیں چاہتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ آسمانی تائید سے میری تفہیم فرمائے تاکہ میں مطمئن ہو جاؤں چنانچہ چند سالوں کی دعا کے بعد ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ صحن مکان میں آسمان سے کاغذ کی پرچیاں کثیر تعداد میں گر رہی ہیں اور ‘‘کہتی ہیں ’’جس پرچی کو مَیں اٹھا کر دیکھتی ہوں اس پر مرزا غلام احمد قادیانی لکھا ہوا پاتی ہوں۔ اس رؤیا کے بعد اطمینان حاصل ہو گیا اور صدق دل سے 1900ء میں بیعت کر لی۔
مرحومہ کا چونکہ کوئی بھائی نہ تھا اس لیے ان کے والد نے ان کو اپنے ہی گھر میں رکھا ہوا تھا۔ بیعت کرنے کے بعد والد نے شدید مخالفت شروع کر دی مگر مرحومہ ثابت قدم رہیں اور امرِ حق کے کہنے اور سچ بولنے سے کبھی دریغ نہ کیا۔ آخر جب والد فوت ہو گئے تو اپنی والدہ ماجدہ اور اپنی دونوں چھوٹی بہنوں اور ان کے بعض بچوں کو بھی اپنے نیک نمونہ سے داخل احمدیت کر لیا۔‘‘(روزنامہ الفضل قادیان دار الامان مؤرخہ یکم اگست 1936ء صفحہ 8)
پس نیک نمونہ بھی رشتہ داروں میں بہت کام کرتا ہے، یہ بھی ایک تبلیغ کا ذریعہ ہے جس کو ہر عورت کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے جن کے غیر احمدی رشتہ دار ہیں۔
محترمہ امیر بی بی صاحبہ جو میاں خیر الدین صاحب کی اہلیہ تھیں جن کے متعلق ان کے بیٹے مولانا قمر الدین صاحب لکھتے ہیں کہ ’’گاؤں کی بہت سی احمدی اور غیر احمدی لڑکیوں نے محترمہ والدہ صاحبہ سے قرآن کریم ناظرہ اور باترجمہ پڑھا تھا۔ دینی مسائل اور عبادات میں شغف رکھتی تھیں۔ ہماری پھوپھی مائی کاکو کے ہمراہ جمعہ کی نماز پڑھنے قادیان جایا کرتی تھیں اور گاؤں کی دوسری مستورات بھی۔ ایک مرتبہ والدہ صاحبہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نمازِ مغرب کے متعلق سوال کیا کہ کھانا پکانے کا وقت ہوتا ہے،کیسے ادا کی جائے؟‘‘ سوال کر دیا کہ نماز مغرب کا وقت ہوتا ہے ادھر سے کھانا پکانے کا وقت ہوتا ہے، خاوند آ جاتا ہے گھر والے آ جاتے ہیں کھانا دو تو کس طرح ادا کروں؟ ’’حضور (علیہ السلام)نے فرمایا کھانا مغرب سے پہلے پکا لیا کرو اور نماز وقت پر پڑھیں۔ حضورؑ نے یہ ارشاد بڑی تاکید سے فرمایا۔‘‘ وقت پہ نماز پڑھنے کا ارشاد بڑی تاکید سے فرمایا۔
گھر کے کاموں کا بہانہ کر کے اپنی نمازوں کو آگے پیچھے نہیں کرنا چاہیےیہ ہر عورت کو نوٹ کرنا چاہیے۔
کہتے ہیں کہ ’’محترمہ والدہ صاحبہ کو ہم نے پابندِ صوم و صلوٰۃ اور باقاعدگی سے نماز تہجد پڑھنے والی پایا۔ آپ اخلاق فاضلہ سے متصف تھیں۔ آپ کی نیکی اور تقویٰ و طہارت کی وجہ سے بہت سی مستورات آپ سے دعا کراتی تھیں۔‘‘(ماہنامہ مصباح ربوہ ۔ سالنامہ 1969ء بحوالہ سیکھوانی برادران تصنیف منیر الدین شمس صفحہ31-33)
حضرت سیدہ مریم النساء صاحبہ، جنہیں جماعت اُمّ طاہر کے نام سے جانتی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ان کا نام اُمّ طاہر (حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکی والدہ) رکھ دیا تھا، ان کے دل میں خدا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ’’ایک دفعہ میں نے انہیں یہ حدیث سنائی کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے ایک صحابی نے قیامت کے متعلق سوال کیا جس پر آپؐ نے فرمایا کہ تم قیامت کے متعلق پوچھتے ہو، کیا اس کے لئے کوئی تیاری بھی کی ہے؟اس نے جواب دیا یا رسول اللہؐ! اگر تیاری سے نماز روزہ وغیرہ مراد ہے تو مَیں کچھ نہیں کہہ سکتا۔‘‘ جو ظاہری عبادت ہے میں کرتا تو ہوں اور میں کیا کہہ سکتا ہوں کہ میری قبول ہو گئی ہے کہ نہیں۔ ’’ہاں میں یہ جانتا ہوں‘‘ ایک بات میں ضرور بتا دوں آپؐ کو ’’کہ میں اپنے دل میں خدا اور اس کے رسولؐ کی سچی محبت رکھتا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ درست ہے‘‘ کہ تم اللہ اور اس کے رسول سے سچی محبت رکھتے ہو ’’تو میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ انسان اپنی محبوب ہستیوں سے جدا نہیں کیا جائے گا‘‘ پھر تم ضرور ان سے قیامت کے دن یا اگلے جہان میں ملو گے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کہتے ہیں کہ ’’میں نے دیکھا کہ جب میں نے ہمشیرہ مرحومہ کو یہ حدیث سنائی تو ان کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا اور وہ بے ساختہ کہنے لگیں کہ میں بھی اپنے دل کو ایسا ہی پاتی ہوں۔ میں نے کہا پھر آپ کو بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خوشخبری مبارک ہو کہ آپ بھی اپنی محبوب ہستیوں کے ساتھ جگہ پائیں گی۔‘‘( سیرت حضرت سیدہ مریم النساء(ا م طاہر صاحبہ) صفحہ 10-11)
جان مال کی قربانیوں کے بارے میںحضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ واقعہ بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ’’ایک جگہ رنگروٹ بھرتی کرنے کے لئے ہمارے آدمی گئے۔‘‘ یعنی فوج میں بھرتی کرنے کے لیے۔ رضاکار فورس کو بھرتی کرنے کے لیے گئے یا مستقل فوج کی بھرتی کرنے کے لیے گئے۔ وہاں ’’انہوں نے جلسہ کیا‘‘ ہمارے آدمیوں نے ’’اور تحریک کی ‘‘(فوج میں بھرتی کرنے کے لیے گئے تھے) کہ پاکستانی فوج میں شامل ہونے ’’کے لئے لوگ اپنے نام لکھوائیں۔ جن قوموں میں لڑائی کی عادت نہیں ہوتی اس کے افراد ایسے موقع پر عموماً اپنا نام لکھوانے سے ہچکچاتے ہیں چنانچہ اِس موقع پر بھی ایسا ہی ہوا۔ تحریک کی گئی کہ لوگ اپنے نام لکھوائیں مگر چاروں طرف خاموشی طاری رہی اور کوئی شخص اپنا نام لکھوانے کے لئے نہ اٹھا۔ تب ایک بیوہ عورت جس کا ایک ہی بیٹا تھا اور جو پڑھی ہوئی بھی نہیں تھی اس نے جب دیکھا کہ بار بار احمدی مبلغ نے کھڑے ہو کر تحریک کی ہے کہ لوگ اپنے نام لکھوائیں مگر ہچکچانے کی وجہ سے آگے نہیں بڑھتے تو وہ عورتوں کی جگہ سے کھڑی ہوئی اور اس نے اپنے لڑکے کو آواز دے کرکہا۔ او فلانے! تو بولتا کیوں نہیں! تو نے سنا نہیں کہ خلیفہ وقت کی طرف سے تمہیں جنگ کے لئے بلایا جا رہا ہے۔ اِس پر وہ فوراً اٹھا اور اس نے اپنا نام جنگ پر جانے کے لئے پیش کر دیا۔ ‘‘ (اس وقت جنگ تھی پاکستان کی تو پاکستانی فوج کے لیے بھرتی ہو رہی تھی) ’’تب اس کو دیکھ کر اَور لوگوں کے دلوں میں بھی جوش پیدا ہوا اور انہوں نے بھی اپنے نام لکھوانے شروع کر دیئے۔‘‘ حضرت مصلح موعود ؓلکھتے ہیں کہ ’’وہ عورت زمیندار طبقہ سے نہیں تھی بلکہ غیر زمیندار طبقہ سے تعلق رکھتی ہے جس کے متعلق زمیندار بڑی حقارت سے یہ کہا کرتے ہیں کہ وہ لڑنا نہیں جانتے مگر اس نے غیر زمیندار ہو کر اپنی ذمہ داری کو محسوس کیا اور ایسی حالت میں محسوس کیا کہ جب کہ وہ بیوہ تھی اور اس کا صرف ایک ہی بیٹا تھا اور آئندہ اسے کوئی بیٹا ہونے کی کوئی امید نہیں تھی۔ اس نے کہا جب خدا اور اسلام کے نام پر ایک آواز اٹھائی جا رہی ہے تو پھر میرا کوئی بیٹا رہے یا نہ رہے مجھے اِس آواز کا جواب دینا چاہیے۔ ‘‘ آپ لکھتے ہیں کہ ’’شدید جذبات مقابل میں ویسے ہی جذبات پیدا کر دیا کرتے ہیں۔ جب اس نے یہ بات کہی تو کئی بزدل جو اپنے آپ کو پہلے بچا رہے تھے انہوں نے بھی اپنے ارادوں کو پیش کرنا شروع کر دیا اور جب یہ اطلاع میرے پاس پہنچی اور خط میں مَیں نے یہ واقعہ پڑھا‘‘ اس عورت کا کہ کس طرح اس نے قربانی کی ہے ’’تو پیشتر اِس کے کہ میں اِس خط کو بند کرتا مَیں نے خداتعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے کہا۔
اے میرے رب! یہ بیوہ عورت اپنے اکلوتے بیٹے کو تیرے دین کی خدمت کے لئے یا مسلمانوں کے ملک کی حفاظت کے لئے پیش کر رہی ہے۔اے میرے رب! اِس بیوہ عورت سے زیادہ قربانی کرنا میرا فرض ہے۔ میں بھی تجھ کو تیرے جلال کا واسطہ دے کر تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ اگر انسانی قربانی کی ہی ضرورت ہو تو اے میرے رب! اِس کا بیٹا نہیں بلکہ میرا بیٹا مارا جائے۔‘‘(آئندہ وہی قومیں عزت پائیں گی جو جانی و مالی قربانیوں میں حصہ لیں گی، انوارالعلوم جلد 21صفحہ 159-160)
حضرت مصلح موعودؓ نے یہ دعا کی۔ پھر فرماتے ہیں کہ ’’مجھے یاد ہے 1953ء کے فسادات کے دوران میں ضلع سیالکوٹ سے ایک عورت پیدل ربوہ پہنچیں اور اس نے ہمیں بتایا کہ ہمارا گاؤں دوسرے علاقہ سے کٹ چکا ہے اور مخالفوں نے ہمارا پانی بند کر دیا ہے۔ اگر ہم پانی لینے جاتے ہیں تو وہ ہمیں مارتے ہیں۔ اس وقت ایک فوجی افسر یہاں رخصت پر آیا ہوا تھا۔ اس کو مَیں نے ایک مقامی دوست کے ساتھ وہاں بھیجا تا کہ وہ وہاں جا کر احمدیوں کی امداد کرے۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں ’’اب دیکھ لو کتنی بڑی ہمت کی بات ہے کہ جہاں مرد قدم نہ رکھ سکے وہاں ایک عورت نے اپنے آپ کو پیش کر دیا۔ اس وقت مرد اپنے گھروں سے باہر نکلنے سے ڈرتے تھے مگر وہ عورت سیالکوٹ سے پیدل سمبڑیال کی طرف گئی۔ وہاں سے گوجرانوالہ کی طرف آئی اور پھر گوجرانوالہ سے کسی نہ کسی طرح یہاں پہنچی اورہمیں جماعت کے حالات سے آگاہ کیا اور ہم نے یہاں سے ان کو امداد کے لئے آدمی بھجوائے تو‘‘ فرماتے ہیں کہ دیکھو ’’خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری عورتیں مردوں سے زیادہ دلیر ہیں۔‘‘
(افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1957ء ، انوارالعلوم جلد 26 صفحہ 270)پھر ایک جگہ آپؓ نے فرمایا۔
’’بہت سے مبلغ ہیں جن کی قربانیوں کا صحیح اندازہ ہماری جماعت کے دوست نہیں لگا سکتے
بالخصوص دو مبلغ تو ایسے ہیں جو شادی کے بہت تھوڑا عرصہ بعد ہی تبلیغ کے لئے چلے گئے اور اب تک باہر ہیں۔ ان میں سے ایک دوست تو نو سال سے تبلیغ کے لئے گئے ہوئے ہیں۔ حکیم فضل الرحمٰن صاحب ان کا نام ہے۔ انہوں نے شادی کی اور شادی کے تھوڑے عرصہ کے بعد ہی انہیں تبلیغ کے لئے بھجوا دیا گیا۔ وہ ایک نوجوان اور چھوٹی عمر کی بیوی کو چھوڑ کر گئے تھے مگر اب وہ آئیں گے تو انہیں ادھیڑ عمر کی بیوی ملے گی۔ یہ قربانی کوئی معمولی قربانی نہیں۔ میرے نزدیک تو کوئی نہایت ہی بےشرم اور بے حیا ہی ہو سکتا ہے جو اس قسم کی قربانیوں کی قیمت کونہ سمجھے اور انہیں نظر انداز کر دے۔‘‘( الفضل مورخہ یکم اکتوبر 1942ء صفحہ 2 کالم 3-4 جلد 30 نمبر229)
قرونِ اولیٰ کی عورتوں کی مثالیں دیتے ہوئے، اپنے زمانے کی عورتوں کی مثالیں دے کر بھی حضرت مصلح موعودؓ نے ہمیں بہت سی تاریخ سے آگاہ کیا ہے۔ اسی طرح ایک واقعہ آپؓ بیان کرتے ہیں کہ جب قادیان میں ہندوؤں اور سکھوں نے حملہ کیا تو شہر کے باہر کے ایک محلہ میں ایک جگہ پر عورتوں کو اکٹھا کیاگیا او ران کی سردار بھی ایک عورت ہی بنائی گئی جو بھیرہ کی رہنے والی تھی۔ اس عورت نے مردوں سے بھی زیادہ بہادری کا نمونہ دکھایا۔ ان عورتوں کے متعلق یہ خبریں آتی تھیں کہ جب سکھ اور ہندوؤں کو جو تلواروں اور بندوقوں سے ان پر حملہ آور ہوتے تھے یہ بھگا دیتی تھیں۔ اورسب سے آگے وہ عورت ہوتی تھی جو بھیرہ کی رہنے والی تھی جس کو نگران بنایا گیا تھا اور انکی سردار بنائی گئی تھی۔ اب بھی یہ عورت زندہ ہے لیکن اب بڑھیا اور ضعیف ہوچکی ہے۔ وہ عورتوں کو سکھاتی تھی کہ اِس اِس طرح لڑنا ہے او رلڑائی میں ان کی کمان کرتی تھی۔
اب یہاں یہ دین کے لیے کوئی لڑائی نہیں ہو رہی، یہ دوسری لڑائیاں ہو رہی تھیں جو آپس میں اختلافات کی وجہ سے لڑائیاں تھیں، قوموں کی لڑائیاں تھیں۔ اس میں مذہب کا اتنا دخل نہیں تھا لیکن بہرحال کچھ مذہب کا دخل بھی شامل کر لیا گیا ہندوؤں اور سکھوں کی طرف سے اس زمانے میں مسلمانوں کی طرف سے بھی لیکن جہاں تک احمدیت کا سوال ہے احمدیت کا غلبہ لڑائیوں سے نہیں بلکہ عمل سے اور دعاؤں سے ہونا ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے۔ بہرحال آپ لکھتے ہیں کہ غرض کوئی کام بھی ایسا نہیں جو عورت نہیں کرسکتی۔ وہ تبلیغ بھی کرسکتی ہے۔وہ پڑھا بھی سکتی ہے۔ وہ لڑائی میں بھی شامل ہوسکتی ہے۔ او راگر مال اورجان کی قربانی کا سوال ہو تو وہ ان کی قربانی بھی کرسکتی ہے۔ او ربعض کام وہ مردوں سے بھی لے سکتی ہے۔ مرد بعض دفعہ کمزوری دکھا جاتے ہیں، اس وقت جو غیرت عورت دکھاتی ہے وہ کوئی اَور نہیں دکھا سکتا۔(ماخوذ از قرون اولیٰ کی مسلمان خواتین کا نمونہ اپنے سامنے رکھو، انوارالعلوم جلد 25 صفحہ 443-444)
اب وہ جو عورت کی مثال ہے جس نے اپنے بیٹے کو کہا تھا اسی کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کس طرح اپنے بیٹے کو کھڑا کیا اور اس کی وجہ سے پھر اَور لوگ بھی کھڑے ہو گئے۔ اب اس زمانے کی بعض، ایک دو مثالیںپیش کر دیتا ہوں کہ کس طرح عورتوں نے بیعت کے بعد ایمان اور علم میں ترقی کی ہے اور اپنے بچوں کی تربیت کی کوشش کی ہے، اپنے آپ کو بھی اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔
قرغیزستان کے نیشنل پریذیڈنٹ لکھتے ہیں کہ عائزہ مکاشفہ صاحبہ ہیں۔ انہوں نے 2019ء میں بیعت کی، مسلمان فیملی سے تعلق رکھتی ہیں لیکن احمدیت میں شامل ہوتے ہی انہوں نے قرآن کریم ناظرہ سیکھنے کا ارادہ کیا۔ پہلے قرآن کریم پڑھنا نہیں آتا تھا اور تقریباً چار چھ ماہ قرآن کریم ناظرہ سیکھ کر قرآن کریم کا پہلا دور مکمل کیا۔ پھر عربی زبان سیکھنا شروع کی تا کہ قرآن کریم کے معانی کو سمجھ سکیں اس کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کو خوش الحانی کے ساتھ پڑھنا بھی سیکھ رہی ہیں۔ اسی طرح وہ اپنے بچوں کی اس طرح تربیت کر رہی ہیں کہ ان کو قرآن کریم ناظرہ سکھا رہی ہیں نیز جماعت کی بعض دوسری لجنات کو بھی قرآن کریم ناظرہ پڑھنا سکھا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ جماعت کی قرغیز ویب سائٹ کے لیے مسلسل وقت دیتی ہیں اور ان کے ذمہ لگائے گئے کاموں کو نہایت اخلاص کے ساتھ سرانجام دیتی ہیں۔
دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی نیت ہو تو اللہ تعالیٰ بھی مدد کرتا ہے چاہے وہ ان مغربی ممالک میں ہو۔
ایک عزیزہ ڈاکٹر ہیں لکھتی ہیں کہ جب میں انگلینڈ میں آئی تو یہاں ڈاکٹر کے طور پر کام کرنے کے لیے امتحان دینے ہوتے تھے۔ اس زمانے میں وہ امتحان بھی مشکل مشہور تھے کہ مشکل سے پاس ہوتے ہیں۔ کہتی ہیں بہرحال پہلا پرچہ تحریری تھا اللہ کے فضل سے پاس ہو گیا۔ اب پریکٹیکل امتحان کی تیاری ہو رہی تھی جس میں کہ مختلف سٹیشن پر جا کر مریض کو دیکھنا ہوتا ہے اور ایک examinerآپ کو دیکھ رہا ہوتا ہے، نمبر مارک کرتا ہے۔ پھر امتحان سے کچھ دن قبل ایک ساتھی کا فون آیا کہ تم امتحان کے روز کیا کپڑے پہن رہی ہو؟ کہتی ہیں سوال مجھے بڑا عجیب لگا کہ برقع کے نیچے تو جو کپڑے بھی پہنے ہوں گے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ میرے استفسار پر اس نے کہا کیا تم حجاب اور برقع میں جاؤ گی؟ اس پر میں نے کہا ہاں۔اس نے کہا پھر تم کبھی پاس نہیں ہو گی کیونکہ ہمارے کورس میں بھی انہوں نے کہا تھا کہ سوٹ یا سکرٹ پہن کر آنا۔ میں نے اس کی بات سن تو لی لیکن اس کے بعد میں بہت روئی کیونکہ یہ تو مجھے پتا تھا کہ میں نے اپنا پردہ نہیں اتارنا۔ صدمہ صرف اس بات کا ہوا کہ اب اپنی ڈاکٹری پریکٹس جو ہے وہ نہیں کر سکوں گی۔ بہرحال خاوند کوبتایا، اس نے بھی اس طرح تسلی دی کہ کچھ نہیں ہو گا۔ بہرحال گھبرائی ہوئی تھی۔ امتحان کا دن آیا، اسی طرح برقع اور حجاب میں امتحان دیا جو پاکستانی طرز کا برقع تھا۔ امتحان کا نتیجہ آیا اور الحمد للہ پاس ہو گئی اور جو میری ساتھی تھی وہ پاس نہیں ہو سکی جو بڑے اپنے آپ کو فیشن ایبل سمجھ رہی تھی۔ تو کہتی ہیں
میں آج تک اس بات پر یقین رکھتی ہوں کہ وہ امتحان میں نے ہرگزاپنی قابلیت یا محنت کی وجہ سے پاس نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دکھایا ہے کہ اگر تم دین کو دنیا پر مقدم رکھو گی تو میں تمہاری مدد کروں گا
اور پھر اس کے بعد ہر مقام پر پردے کی برکت سے خدا تعالیٰ نے میرے پیشے کی مدد کی اور مجھے خدا کے فضل سے ہمیشہ ہر مقام پر عزت ملی۔ یہاں جو خیال ہوتا ہے ناں کہ پردے سے بعض حقوق نہیں ملتے اگر انسان کو اللہ تعالیٰ پر یقین ہو، دعا کرے اور دین پر قائم رہے اور کچھ عرصہ کے لیے اگر نقصان بھی اٹھانا پڑے تو اٹھا لے تو پھر اللہ تعالیٰ آخر کار کامیابی عطا فرماتا ہے۔
اسی طرح ناروے سے ایک خاتون لکھتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے جلسہ سالانہ یوکے میں شامل ہونا تھا۔ ٹکٹیں بک کروائیں، کام والے نے مجھے چھٹی نہیں دی، ناراض بھی ہو رہے تھے۔ میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گی، جلسہ پر ضرور جانا ہے چاہے مجھے جاب چھوڑنی پڑے۔ کہتی ہیں جاب والوں کو کہہ دیا کہ آپ چھٹی نہیں دیتے تو نہ دیں پھر میں جاب چھوڑ دیتی ہوں لیکن بہرحال دو تین دن کے بعد ہی اللہ کا فضل ہوا اور وہ افسر جس نے مجھے سختی سے بات کی تھی اس نے نہ صرف مجھے چھٹی دی بلکہ استفسار کیا کہ کہاں جانا ہے جس کے لیے کام چھوڑنے کے لیے تیار ہو گئی ہو؟ میں نے اس کو بتایا کہ میرا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے اور میں نے جلسہ سالانہ میں شرکت کے لیے انگلینڈ جانا ہے، یوکے جانا ہے۔ اس چیز سے وہ اتنی متاثر ہوئی کہ جب میں جلسہ سے واپس آئی تو مسجد بیت النصر دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ اسلام تو اس نے پہلے بھی قبول کیا ہوا تھا لیکن مسجد میں کچھ دفعہ جانے کے بعد اس نے جماعت میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ پہلے اس کو کہا بھی کہ دعا کرو دل مطمئن ہو جائے پھر بیعت کرنا لیکن اس نے کہا جو سکون اور امن اور محبت یہاں ہے وہ کہیں اَور نہیں ہے۔ چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد اس نے اور اس کی بیٹی نے بیعت کی اور جماعت میں شامل ہوئی۔
تو یہ نمونہ اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا نمونہ جو ہے دوسری کا نہ صرف دل نرم کرنے کا باعث بنا بلکہ ہدایت کا بھی باعث بن گیا۔
امیر صاحب تنزانیہ لکھتے ہیں کہ کیلی منجارو (Kilimanjaro) پہاڑ کے دامن میں ایک جماعت Machame کے مقام پر واقع ہے، وہاں ایک لجنہ جس کی عمر73برس ہے انتہائی ضعیف ہو چکی ہے مگر جب بھی ان سے ملاقات ہوتی ہے تو خاص طور پر یہ ضرور پوچھتی ہیں کہ خلیفۂ وقت کی طبیعت کا کیا حال ہے اور پھر بڑی دعائیں دیتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ چونکہ مستقل بیماررہتی ہیں اس لیے علاقے کے لوگ آ کر انہیں کہتے ہیں کہ فلاں مولوی یا فلاں پادری سے علاج کروا لو یا دعا اور دم درود کروا لو لیکن یہ خاتون ہمیشہ اپنے علاقے والوں کو توحید کا پرچار کرتی ہیں ۔ جو توحید ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سکھائی ہے جو اسلام کی حقیقی توحید ہے جو حقیقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہے اور ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتی ہیں اور ساتھ ساتھ ہر مہینے میں کچھ نہ کچھ ضرور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتی ہیں۔
قرغیزستان کے نیشنل پریذیڈنٹ لکھتے ہیں کہ ایک خاتون ہیں جولیا صاحبہ ایک عیسائی فیملی سے ان کا تعلق تھا۔ 2013ء میں انہیں بیعت کرنیکی توفیق ملی۔ بیعت سے پہلے وہ حجاب نہیں اوڑھا کرتی تھیں لیکن جب انہوں نے اسلام احمدیت میں شمولیت کا ارادہ کیا تو حجاب لینا شروع کر دیا۔ بیعت کے بعد اسی سال جلسہ سالانہ قادیان میں بھی شرکت کی جہاں بہشتی مقبرہ کی بھی زیارت کی۔ جب انہیں نظام وصیت کے بارے میں بتایا گیا تو اسی وقت نظام وصیت میں شامل ہونے کا تہیہ کیا چنانچہ جلسہ سے واپس آ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’’الوصیت ‘‘کا مطالعہ کیا اور وصیت فارم فِل (fill)کر کے نظام وصیت میں شامل ہوئیں۔ اسکے علاوہ بھی مالی تحریکات میں حصہ لیتی ہیں۔
آئیوری کوسٹ سے وہاں کے لوکل معلم لکھتے ہیں کہ ہماری جماعت کی ایک ممبر ٹابا سوبا صاحبہ ہیں، برکینا فاسو کی ایمبیسی میں کام کرتی ہیں اور ہر چھٹی والے دن اپنا بیگ لے کر مختلف دیہاتوں میں نکل جاتی ہیں اور احمدیت کی تبلیغ کرتی ہیں۔ ایک دفعہ وہ گوبویو میں آئیں اور احمدیت کی تبلیغ کی۔ ان کے تبلیغ کرنے کا ایسا طریقہ ہے جیسے کوئی عالم تبلیغ کر رہا ہو۔ موصوفہ بڑے شوق سے تبلیغ کرتی ہیں اور اپنا فارغ وقت احمدیت کی تبلیغ میں گزارتی ہیں۔ وہ دوسرے ملک سے گئی ہوئی ہیں۔ بیگ میں لٹریچر رکھ لیتی ہیں اور تبلیغ کرتی رہتی ہیں۔
بعض عورتیں پوچھتی ہیں کہ ہم تبلیغ کس طرح کریں تو تبلیغ کے راستے تو خود تلاش کرنے ہوتے ہیں اگر شوق ہو تو۔
پس ان باتوں کو ہمیشہ دیکھیں۔ یہ چند ایک واقعات میں نے پیش کیے، ایسے خواتین کی جرأت اور بہادری کے بےشمار واقعات ہیں۔ اس زمانے میں بھی دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے بھی، تربیت اولاد کے بھی بعض تازہ واقعات میں وقتاً فوقتاً بیان کرتا بھی رہتا ہوں اسی طرح صحابہ کے واقعات میں بعض خواتین کا بھی ذکر آ جاتا ہے کہ کس طرح انہوں نے قربانیاں کیں اور قربانیوں کی مثالیں قائم کیں، دین کو دنیا پر مقدم کیا۔ پس
فائدہ تو تبھی ہے جب ان واقعات کو سن کر ان سے فائدہ اٹھایا جائے۔
یہ واقعات وہ روح پیدا کرنے والے ہو جائیں جن کی قرون اولیٰ کی مسلمان عورتوں نے بھی مثالیں قائم کی ہیں اور بعد کے زمانے کی نیک خواتین نے بھی مثالیں قائم کی ہیں۔ اگر ایک انقلابی تبدیلی ان باتوں کو سن کر پیدا ہو جائے، تقویٰ اور نیکی کے معیار قائم ہو جائیں، اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنانے کی تڑپ پیدا ہو جائے، صرف دنیا داری کی باتیں نہ ہوں، صرف اپنے حقوق کی باتوں پر زیادہ زور نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی طرف توجہ ہو اور ہر احمدی عورت یہ عہد کرے کہ اس نے ایک انقلاب پیدا کرنا ہے، ایک روحانی انقلاب پیدا کرنا ہے، اپنے اندر بھی اور دنیا میں بھی تو یہ دنیا بھی جنت نظیر بن جائے گی۔ تبھی ایک انقلاب ہمارے اندر پیدا ہو گا اور اگلے جہان میں بھی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے اور اس کی رضا حاصل کرنے والے ہم بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اپنی زندگیوں کو اس نہج پر چلانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں دعاؤں کی توفیق عطا فرمائے۔ اپنے آپ کو اسلامی تعلیم پر ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اب دعا کر لیں۔
(بشکریہ اخبار الفضل انٹرنیشنل 4؍اکتوبر2022)
…٭…٭…٭…